خیبر پختونخواعوام کی آوازفیچرز اور انٹرویوماحولیات

موسمیاتی تغیر کی وجہ سے پشاور میں ہیٹ سٹروک کے بڑھتے ہوئے کیسز

کیف آفریدی

موسم گرما جون کے مہینے میں خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں گرمی کی لہروں کا راج ہے۔ گرمی کی شدت سے شہری پریشان ہیں۔ انسانی سرگرمیوں کی بدولت عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح پشاور بھی اب محفوظ شہر نہیں ہے۔ ہر سال موسم گرما میں گرمی کی لہروں کا دورانیہ زیادہ ہو تا جا رہا ہے۔

موسمیاتی تغیر جیسے اہم مسلے سے ہیٹ سٹروک میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہیٹ سٹروک سے انسان موت کے منہ میں بھی جا سکتا ہے۔ درجہ حرارت کے بڑھنے سے نہ صرف موسمیاتی تغیر ہوا ہے بلکہ اس سے براہ راست انسان بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ یہ کہنا ہے پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے جنرل میڈیکل وارڈ کی سینئر ڈاکٹر حرما کا۔

وہ کہتی ہے کہ عام طور میں ہیٹ اسٹروک کو لوگ بہت نارمل لیتے ہے لیکن یہ ایک اہم ایشو ہے کیونکہ گرمیوں میں یہ بڑھ جاتا ہے۔ گرمی کی شددت میں اضافہ، دھوپ میں کام کرنا یا جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے انسان ہیٹ سٹروک کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسکے علاوہ اس کی کچھ علامات میں سر درد، بخار کا چڑھنا، جسم کا درد، ڈائریا ہو جانا، آنکھوں کی سوجن، پیچس، ہیضہ اور سر چکراہٹ بھی شامل ہیں۔ اگر یہ علامات ظاہر ہو جائے تو فورا ڈاکٹر سے رجوع کریں اور بروقت علاج کریں۔

ہیٹ اسٹروک کیا ہے؟

ہیٹ اسٹروک ایک طبی ہنگامی حالت ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب جسم کادرجہ حرارت بنیادی درجہ حرارت سے زیادہ ہو جائے۔ ہیٹ اسٹروک گرمی سے متعلق بیماری کی ایک شدید شکل ہے یہ دماغ، دل، گردوں اور دیگر اعضاء کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو ہیٹ اسٹروک جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر حرما کا کہنا تھا کہ اگر بروقت علاج میسر نہ ہو تو متاثر شخص کو او آر ایس دینا چاہئے، پانی زیادہ سے زیادہ پینا چاہئے، کپڑے کو گیلا کر کے سر اور پاوں پر بار بار رکھ دینا چاہئے۔ بچوں اور بوڑھوں کو ہیٹ اسٹروک کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی جسمانی درجہ حرارت کو موثر طریقے سے کنٹرول نہیں کر پاتے۔

اسی طرح ماسب لباس نہ پہننے سے پسینے کو جلدی بخارات بننے اور جسم کی ٹمپریچر بڑھ جانے سےحالت خراب ہو سکتی ہے۔ کوشش کی جائے کہ بلا ضرورت گھر سے نہ نکلا کریں اور اگر کسی کام سے باہر جانا ہے تو پھر چھتری کا استمال کیا کریں۔ پانی کی بوتل اپنے ساتھ رکھے اور گرمی سے بچنے کی بھر پور کوشش کریں۔

ڈاکٹر حرما کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہیٹ اسٹروک سے صرف بزرگ اور بچے متاثر نہیں ہوتے بلکہ نوجوان بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح کھلاڑی بھی اس میں شامل ہے۔ جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں گرمی کی شدت میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے اور اس شدت کے باعث ہیٹ اسٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے

ہیٹ اسڑوک سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر حرما کے مطابق اگر پسینہ آنے سے سردرد ہوتا ہے یا تھکن محسوس ہوتی ہے، دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے اور پٹھوں میں کھچاؤ آ جائے اور جلد کی رنگت پیلی ہو جائے تو فوری طور پر معالج سے رجوع کریں۔

اکثر بزرگ افراد ایسی صورتحال میں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ خواتین بھی نیم بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لائی جاتی ہیں۔ لہذا اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کریں، گھر پر رہے اور بغیر کسی ضرورت کے گھر سے نہ نکلیں تب ہی ہیٹ سٹروک سے بچا جا سکتا ہے۔

خواتین گھر سے باہر نکلتے وقت گلاسز اور چھتری کا استعمال ضرور کریں۔ اور اگر ممکن ہو تو اپنے بچوں کے لیے گھر پر ہی سوئمنگ پول یا ٹب کا انتظام کریں تاکہ اس میں نہا کر کھیل کودیں اور اچھا وقت گزار سکیں۔ ۔ روزانہ دو سے تین لیٹر پانی کا استعمال ہیٹ سٹروک سے بچنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

گرمی کے موسم میں پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال آپ کے جسم کے درجہ حرارت کو بحال کرنے میں مدد دیتا ہے اور خون کی گردش میں روانی پیدا کرتا ہے۔ اس سے چہرے اور سکن کے ساتھ ساتھ گردے اور مثانے کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔

گرمی کے دوران تازہ اور کم کیلوریز پر مشتمل غذاؤں کا استعمال کریں۔ گرمی میں چونکہ کھانا جلد خراب ہو جاتا ہے، لہٰذا کوشش کریں کہ تازہ کھانا کھائیں۔ گرم موسم میں مصالحے دار غذاؤں کا استعمال پسینہ کے اخراج میں اضافہ کرتا ہے، جس سے آپ کی توانائی میں کمی آتی ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں آئے ہوئے پشاور سے تعلق رکھنے والے عابد جان کا کہنا تھا کہ وہ اندرون شہر بازار میں سنار ہے اور انکا کام سونے اور چاندی کو آگ کے شعلوں کے ساتھ دوبارہ بنانا ہے جب کہ گرمی کی شدت میں اضافے سے پچھلے دو دنوں سے انکو بخار اور سر میں درد محسوس ہو رہا تھا۔ پیسنہ بھی کافی آتا تھا جس سے پورے جسم میں درد محسوس ہونے لگا۔ ہسپتال آکر انہیں ڈرپ لگائی گئی اور گھر کے لیے دوائیاں بھی لکھیں۔

32 سالہ عابد جان کہتے ہے کہ ڈاکٹر نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ کچھ دن آرام کریں۔ صحت میں بہتری آنے کے بعد کام پر جائے۔ اسی طرح پانی کا زیادہ استعمال اور گرمی سے بچنے کے لیے بھی ایڈوائس دی ہے۔

عابد جان کی طرح بہت سارے لوگ جو کہ ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں بروقت علاج معالجہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔

عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے پاکستان کے موسموں میں کیا کیا تبدیلی رونما ہو رہی ہیں؟

اس حوالے سے میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ پشاور کے ڈائیرکٹر ڈاکٹر محمد فہیم کا کہنا تھا کہ معمول سے زیادہ بارشیں اور پھر ایک دم خشک سالی، گرمی کی شددت میں بے انتہا اضافہ موسمیاتی تغیر کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

بین الاقوامی ادارے اور خاص کر آئی پی سی سی وغیرہ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا بلخصوص پاکستان میں کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کا اثر اور بھی بڑھے گا جیسے کہ گرمی کا دورانیہ زیادہ ہونا یا معمول سے زیادہ بارشیں ہونا اس میں شامل ہے۔

جتنا وقت گزرتا ہے تو موسمیاتی تبدیلی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے اور ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ پچھلے سالوں کی نسبت اس سال میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کیونکہ اگر دیکھا جائے تو پچھلے مہینے میں 21 مئ سے لیکر 27 مئ تک ہیٹ اسٹروک کا ایپی سوڈ رہا۔

پہلے ہیٹ اسٹروک دو یا تین دن ہوا کرتے تھے اب اس کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ پاکستان کے میدانی علاقے اور خیبرپختونخوا میں بھی اس سال ہوا میں نمی کا تناسب کم دیکھائی دے رہا ہے۔ گرمی کی شددت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ مئی کے مہینے میں ہمارے جنوبی اضلاع جیسے کہ ڈیرہ اسماعیل خان او بنوں وغیرہ میں درجہ حرارت 47 سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا۔

ڈاکٹر محمد فہیم کہتے ہیں کہ جون اور جولائی کی مہینوں میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں میں گلئشیئر پگھلنے کا خدشہ ہے اور ظاہر ہے اگر گلئشر پگھل جائے تو ان سے دریاوں میں پانی کا بہاؤں بڑھ جاتا ہے جس سے سیلاب آنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ جون اور جولائی میں ہیٹ اسٹروک کے بھی کچھ ایپی سوڈ آسکتی ہیں۔

پری مون سون کی بارشوں کے حوالے سے ماہر موسمیات اور کلائمیٹ چینج ڈاکٹر محمد فہیم کہتے ہیں کہ یہ عموما مئ سے جون کے مہینے تک چلتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں پری مون سون بارشیں کم ہوتی ہے۔ لیکن مون سون کی بارشوں کے بارے میں پیش گوئی ہوئی ہے کہ 15 جولائی سے 15 آگست تک زیادہ بارشوں کا امکان ہے۔ اور جب بارشیں زیادہ ہو گی تو ندی نالوں او دریاؤں میں پانی کا بہاں بڑھے گا۔

جولائی سے آگست کے درمیاں درجہ حرارت کے بڑھنے کا بھی خدشہ موجود ہے اور اسکے لئے متعقلہ ادارے پروینشل ڈیزاسٹر منئجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) کے ساتھ ہم رابطے میں رہتے ہیں اگر اس طرح کوئی خطرناک حالات سامنے آتے ہیں تو ہم انکو پہلے سے ہی آگاہ کر لیتے ہیں۔

 

یاد رہے کہ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے سخت متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ ان اثرات میں اگر ایک جانب سیلابی صورتحال، گلیشیئرز کا پگھلنا، بے ترتیب بارشیں اور خشک سالی ہے تو دوسری جانب ہر سال ہیٹ ویوو کے اثرات بھی بڑھتے رہتے ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دو ماہ پہلے اپنی ایک رپورٹ میں عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ پاکستان کو سخت ہیٹ ویوو سے بچانے کے لئے بڑی سطح کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button