لائف سٹائلماحولیات

کیا شجرکاری سے پشاور میں فضائی آلودگی کا خاتمہ ممکن ہے؟

 

فہیم آفریدی

ماحولیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بالخصوص اپنے شہر، صوبے اور ملک کے باسیوں کو درپیش خطرات سے پریشان، مگر اِن خطرات میں کمی کا عزم لئے سید بلال شاہ کو پشاور شہر اور اِس کے مضافات میں شجرکاری کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کے خاتمے کیلئے مہم چلاتے دیکھ کر وہ پرندہ (غالباً ہدہد) یاد آ جاتا ہے جو اپنی ننھی سی چونچ میں پانی کا ایک چھوٹا سا قطرہ لئے اُس بھڑکتی و دہکتی آگ کو بجھانے چلا تھا جو خدائی کا دعویٰ کرنے والے بادشاہ نمرود نے آس کی خدائی کو چیلنج کرنے کی پاداش میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کو سزا دینے کیلئے بڑے اہتمام سے جلائی تھی۔ لیکن درحقیقت بلال شاہ کا مقابلہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہے جو اپنے دائرہ اثر اور ہولناکی کے اعتبار سے آتشِ نمرود سے کہیں زیادہ خوفناک اِس لئے ہے کہ اِس کی وجہ سے تمام بنی نوع انسان اور اِس کرہ ارض کی بقا داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ مصیبت خود انسان کی پیدا کردہ اور، کسی غیبی ہاتھ کی بجائے، خود اُسے ہی اِس سے بچاؤ کی کوئی راہ نکالنی ہے۔

شعبہ فلم اور ٹی وی میں بی ایس کے سٹوڈنٹ بلال شاہ نے جب ”شین پیخور” (گرین پشاور) کے نام سے اپنی مہم کا آغاز کیا تو اُس کے ہمراہ صرف دو ساتھی تھے؛ عروج اور عزیر، لیکن آج یہ قافلہ بڑھتے بڑھتے پندرہ سولہ افراد پر مشتمل ہو گیا ہے۔ بلال پرامید ہے کہ لوگوں میں اِس حوالے سے شعور و آگہی بڑھے گی تو اُس کے ساتھیوں کی تعداد بھی بڑھتی جائے گی۔

”شین پیخور” کا خیال کیسے آیا؟

ٹی این این کے ساتھ اِس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بلال شاہ نے بتایا: "آرٹ کا سٹوڈنٹ ہوں اور آرٹس والوں کو نیچر سے محبت ہوتی ہے۔ ”شین پیخور” کا خیال اِس لئے بھی آیا کہ آج قدرت کے نظام میں جو تبدیلی آئی ہے، یہ جو فضا آلودہ ہوئی ہے (بدھ کی رات اے کیو آئی ویلیو 266 اور پی ایم 2.5 کی کنسٹریشن 215.8µg/m³ تک ریکارڈ کی گئی جو ڈبلیو ایچ او کے سالانہ ائر کوالٹی گائیڈلائن ویلیو سے 43.2 گنا زیادہ ہے)، اسے ہم صاف کریں اور اِس حوالے سے اپنے حصے کا کام کریں۔ اِس کے علاوہ امسال پشاور میں گرمی زیادہ محسوس کی تو یہ سوال ذہن میں آیا کہ یہ اتنی زیادہ کیوں ہے۔ دوسرے اب زکام و کھانسی سمیت مختلف بیماریاں جو پھیل رہی ہیں۔ موسم خراب ہے۔ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کو دیکھا جائے تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آپ پشاور میں 24 گھنٹے ماسک پہن کر ہی اِن بیماریوں سے خود کو بچا سکتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر اِس کی اصل وجہ معلوم کرنے کی سوجھی تاکہ مسئلے کی جڑ معلوم کر کے اُس کے خلاف کام کیا جائے۔ اس حوالے سے ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ گرین انرجی پر کام اور الیکٹرک گاڑیوں کا بندوبست کرنا ہو گا۔ ملک اور اپنے لوگوں کی اکثریت کے معاشی واقتصادی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کام بہت مشکل تھا اِس لئے مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ شجرکاری کر کے اِن اثرات کو قابو یا پھر کم کیا جا سکتا ہے۔

بلال کو موٹیویشن مغرب میں پشتون اور وہاں کے مقامی دوستوں کے توسط سے وہاں پودوں کی اہمیت دیکھ کر بھی ملی: "میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہاں اگر کہیں پودا کھڑا ہے تو اُس کے قریب کھڑی دیوار تو وہ گرا دیتے ہیں لیکن پودا کاٹنے سے مکمل گریز کرتے ہیں۔ یہ پودوں کے تحفظ کے حوالے سے وہاں کے سخت قوانین کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں کے شعور اور ادراک کا بھی نتیجہ ہے۔ اب یہی شعور و ادراک اپنے لوگوں میں اجاگر کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔”

”شین پیخور” کیلئے پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

بلال اور اُس کے ساتھی اب تک شہر کے مضافاقتی علاقوں؛ چمکنی، پھندو، غز چوک اور پخہ غلام، میں کمپین چلا چکے ہیں اور اُن کا ارادہ ہے کہ وہ جمرود تک کے علاقوں کو کور کریں گے۔ اِس حوالے سے بلال شاہ نے بتایا کہ یہ مہم تو انہوں نے ابھی شروع کی ہے تاہم اِس کی ابتدا وہ عرصہ پہلے اِس طرح کر چکے ہیں کہ خاندان یا گاؤں محلے میں جن کے ہاں بھی کسی بچے کی پیدائش ہوئی تو اُس نے اُس بچے کے نام سے وہاں ایک پودا اگایا تاکہ دونوں ساتھ ساتھ بڑے ہوں گے تو بچے کا اُس پودے کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ہو گا: "اب تک 1100 پودے تقسیم اور لگا چکا ہوں۔ اِن میں سے دو سو گرانٹ کے پیسوں، اور باقی سب چچا، ماموں، اور پھوپھی خالہ سمیت مختلف رشتہ داروں کے تعاون سے خریدے ہیں۔ ہم مختلف گرانٹس، سپانسرز کیلئے بھی اپلائی کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں کے پی کی ایک گرانٹ کیلئے ہم نے بھی آئیڈیا پچ کیا تھا جس نے صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اسی گرانٹ سے اِس مہم کا آغاز کیا اور بھی تک کام چلا رہے ہیں۔ اِس مہم میں ہم پودوں (زیادہ تر مورنگا، کوپرنیکس اور اک ادھ پودا اور) کے علاوہ بائیوڈیگریڈیبل تھیلے بھی تقسیم کرتے ہیں اور لوگوں میں پلاسٹک کے خلاف شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ رکشہ یا دھواں چھوڑنے والی دیگر گاڑیوں کے مالکان کے پاس جا کر انہیں سمجھاتے ہیں اور یہ ترغیب دیتے ہیں کہ وہ مکینک کے پاس جا کر یہ مسئلہ ٹھیک کروا لیں۔”

کمیونٹی رسپانس کیسا ہے؟

جن جن کمیونٹیز میں اب تک بلال شاہ گئے ہیں، وہاں بعض لوگوں کے رسپانس کو اگرچہ وہ حوصلہ  افزا تو قرار دیتے ہیں تاہم ساتھ یہ گلہ بھی کرتے ہیں کہ اِدھر پشتونخوا میں کام کرنا آسان نہیں ہے؛ "کئی ادروں کے پاس گیا ہوں، سرکاری و غیرسرکاری، بہت سے لوگوں سے ملا لیکن صرف چند لوگ، پندرہ سولہ بندے ہی میرے ہم آواز بنے ہیں اور انہی کی مدد سے یہ مہم چلا رہے ہیں۔ لیکن ہم مایوس نہیں ہیں بلکہ ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔ جو بھی ادارہ، خواہ سرکاری ہو یا غیرسرکاری، یا کوئی بھی ہمیں فنانس کرے، ہمیں سپورٹ کرے، یا پودے دے تو ہم ان کے ساتھ کام کریں گے۔ جو بھی پودے لگائے گا تو میں اُس کا ساتھی ہوں۔ ہم رضاکارانہ طور پر بھی یہ کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ویسے بھی اپنے ماحول، اور اپنے لوگوں کیلئے کام کر کے ہمیں دلی سکون ملتا ہے، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔”

سید بلال شاہ نے شہر اور صوبہ کے دیگر نوجوانوں کو یہ دعوت عام بھی دی کہ جس طرح انہوں نے گرین پشاور مہم شروع کی ہے اُسی طرح کوئی گرین مردان، کوئی گرین صوابی مہم شروع کر کے اِس مشترکہ کاز میں اپنا حصہ ڈالے۔

”شین پیخور” کتنا موثر؟

ماہر ماحولیات، اور اِس فیلڈ میں 30 سالہ پیشہ ورانہ تجربہ رکھنے والے عبدالرحمٰن خان گرین پشاور مہم اور بلال شاہ اینڈ کمپنی کو سراہتے اور سپورٹ کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی بوجوہ وہ اِس ٹیم کو ‘صحیح ہاتھوں’ میں دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں تاکہ اُن کی توانائیوں کو درست سمت میں بروئے کار لایا جا سکے: ” سب سے پہلے مسئلے کی نوعیت، اس کی وجوہات اور اس کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے تبھی کوئی موثر پلان یا سٹریٹجی بنائی جا سکتی ہے۔ شجرکاری ہو یا پھر پلاسٹک کے خلاف مہم، بلاشبہ یہ اپنی جگہ اہم سرگرمیاں ہیں، اور ہونی چاہئیں، لیکن اگر ہمیں پشاور میں فضائی آلودگی کو کم کرنا ہے تو پھر یہ ہمارے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ ہمارا مسئلہ کاربن نہیں، یہ مغرب کا مسئلہ ہے۔ ان کے مقابلے میں ہمارا فی کس کاربن فٹ پرنٹ قابل نظرانداز ہے۔ اصل میں ہمارا مسئلہ فائن پارٹیکولیٹ میٹر کا ہے جو شجرکاری سے ختم نہیں ہو گا۔ اِس کیلئے ہمیں اِس کے بڑے زرائع جیسے ٹرانسپورٹ سیکٹر، بھٹہ خشتوں اور انڈسٹریل سیکٹر سے ہونے والے اخراج میں کمی کے ساتھ ساتھ ایگریکلچرل اور انرجی سیکٹرز میں اصلاحات اور اقدامات کرنا ہوں گے۔ سڑکوں اور شاہراہوں کی حالت بہتر بنانا ہو گی، ڈسٹ کو صاف کرنا ہو گا۔

اس کے بعد ہمارا بڑا مسئلہ میتھین کا ہے جو گرین ہاؤس گیسز میں دوسرے نمبر پر بڑی گیس ہے، اور اِس کا بڑا زریعہ ویسٹ یعنی گند ہوتا ہے۔ اِس لئے ویسٹ واٹر منیجمنٹ میں جدت لاتے ہوئے ہم نہ صرف میتھین کا مسئلہ کر سکتے ہیں بلکہ اپنے ویسٹ کو وسائل اور توانائی میں بھی بدل سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہم نے پوری ایک فزیبلٹی رپورٹ تیار کی ہے اور ہم متعلقہ حکام کے ساتھ رابطے میں بھی ہیں۔”

عبدالرحمٰن خان شجرکاری کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے تاہم اِس حوالے سے اُن کا اصرار ہے کہ ہمیں اپنے مقامی پودے اگانا ہوں گے، اور جو پہلے سے موجود ہیں ان کے تحفظ کو یقیی بنانا ہو گا۔ اُن کے نزدیک غیرمقامی/نان نیٹو یا ایگزاٹک پودوں کا نقصان تو ہوتا ہے لیکن فائدہ کوئی نہیں ہوتا۔ ایک تو وہ اپے ارگرد ویجیٹیشن کو ختم کر دیتے ہیں۔ دوسرے خود بھی کچھ عرصہ بعد بیمار ہو کر مر جاتے ہیں۔ وہ باڑہ، اضاخیل، درہ آدم خیل اور زلوزئی جیسے شہر کے جنوبی خشک اور بنجر علاقوں میں 80 لاکھ پودوں (زیادہ تر براس) پر مشتمل ایک جنگل اگانے کا آئیڈیا بھی پیش کرتے ہیں جس سے نا صرف شہر میں فضائی آلودگی میں کمی آئے گی، گرین ہاؤسز گیسز کو مستقلاً قید کیا جا سکے گا بلکہ اراضی مالکان کو مالی فوائد کے ساتھ ساتھ ایک پوری معاشی سرگرمی پیدا کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے اِس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ شہر میں موجود بڑے بڑے اور پرانے درخت ہم کاٹ چکے۔ تعمیرات اور خاص طور پر بی آر ٹی کی وجہ سے شہر میں گرین سپیسز ختم کر دی گئیں اور اِس ضمن میں قومی نہ ہی بین الاقوامی معیار کا خیال رکھا جا رہا ہے: "ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پشاور شہر کے 54 فیصد علاقے پر تعمیرات اور گرین سپیسز محض دو فیصد ہیں۔ پشاور میں فی کس سبزےکی دستیابی ایک اعشاریہ پانچ مربع میٹر ہے۔ یہ قومی معیار سے تین اعشاریہ پانچ جبکہ ڈبلیو ایچ او کے مقرر کردہ انٹرنیشنل سٹینڈرڈ سے سات اعشاریہ پانچ مربع میٹر کم ہے۔ پشاور شہر کو رہنے کے قابل بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اِس صورتحال میں بہتری لائیں۔ لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ ہمارے پاس وقت کم اور کام ہمیں ڈھیر سارا کرنا ہے۔”

انوائرنمنٹ اور ماحولیات پر کام کرنے والے سینئر صحافی فواد علی کا کہنا تھا کہ فضائی آلودگی اور خاص طور پر ماحولیاتی تبدیلی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو پر اثرانداز ہو رہی ہے لیکن ہمارے عوام کی اکثریت آج بھی لاعلم جبکہ حکومت مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی آ رہی ہے: ”عرصہ ہوا کلائمیٹ پالیسی ہم بنا چکے ہیں، کلائمیٹ ایکشن پلان بھی، اور اب نیشنل ایڈاپٹیشن پلان بھی آ چکا لیکن ہمارے زیادہ تر اقدامات کاغذات تک ہی محدود ہوتے ہیں۔ ہمارا بڑا مسئلہ پالیسیوں کے نفاذ کا ہوتا ہے۔ اِس لئے ضروری ہے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر ہم عملی اقدامات اٹھائیں۔ اِس میں ہر فرد کا کردار بنتا ہے اس لئے سب سے پہلے عوای سطح پر شعور و آگہی پھیلانا بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے پروفیسرز، اساتذہ اور طلباء کے علاوہ میڈیا اور بلال جیسے کمیونٹی انٹرسٹ گروپس کا کردار بڑا اہم ہے۔ ہمیں خاص طور پر نوجوان اور خواتین پر فوکس کرنا ہو گا۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button