صحت

صحت کارڈ: ”ایک آنکھ کا آپریشن تو کر لیا، دوسری کا کیسے کروں گا؟”

وطن زیب

جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا سے تعلق رکھنے والے رحمن گل (فرضی نام) کچھ ماہ پہلے آنکھوں کے مسئلے کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس گئے تو چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے آپریشن کرانے کا کہا جس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک نجی ہسپتال میں صحت سہولت کارڈ کی مدد سے ان کی ایک آنکھ کا مفت اور کامیاب آپریشن کیا گیا اور ساتھ میں فری ادویات بھی دی گئیں اور دوسری آنکھ کا آپریشن کچھ ٹائم بعد کرانے کا کہا گیا۔

”2022-23 کے بجٹ میں وفاقی حکومت کی طرف سے قبائلی علاقوں کے لیے مختص فنڈ کو ختم کرنا ہمارے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کسی پرائیویٹ ہسپتال سے اپنا علاج پیسوں سے کروا سکوں۔” ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں رحمن گل نے افسردہ ہو کر بتایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب وہ وفاقی حکومت کی طرف سے صحت سہولت کارڈ کی بحالی کے منتظر ہیں، ”مجھ سمیت قبائلی اضلاع کے کئی سو گھرانوں کے لیے اس مہنگائی کے دور میں نجی ہسپتالوں سے اپنے خرچ پر علاج کرانا ناممکن ہے، ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں صحت سہولت کارڈ بحال کیا جائے کیونکہ یہ ہمارا حق ہے ہمیں بھی باقی علاقوں کے لوگوں کی طرح حقوق دیئے جائیں۔”

یہ بھی پڑھیں:

”وفاقی حکومت سے صحت کارڈ لے کر رہیں گے”

صحت کارڈ سہولت بجا لیکن ایکسرے مشین کیوں خراب ہے؟

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی مشر سردار جمال الدین خان شمن خیل نے اس حوالے سے بتایا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے قبائلی اضلاع کے لوگوں کے صحت انصاف کارڈ کے لیے مختص شدہ فنڈ ختم کرنا سراسر ناانصافی ہے اور صوبے کو چاہئے کے اس منصوبے کا کوئی متبادل حل نکالیں، صوبائی حکومت کو چاہیے کہ یہ منصوبہ قبائلی اضلاع میں کسی اور منصوبے کی صورت میں جاری رکھے اور قبائلی عوام سے ان کا حق نہ چھینے کیونکہ صحت کارڈ کے اس منصوبے سے ان علاقوں کے غریب لوگوں کو کافی مدد ملی تھی۔

خیال رہے کہ ابھی کچھ ہی روز قبل (20 جون کو) صوبائی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی نصیر وزیر نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے آتے ہی قبائلی علاقوں کے فنڈ سے پچیس ارب روپے کی کٹوتی کی جو کہ قبائلی اضلاع کے عوام کے صحت کارڈ کے لیے مختص کی گئی تھی۔

انھوں نے صوبائی حکومت کو بھی قصوروار قرار دیتے ہوئے کہا کہ قبائلی عوام کو صحت انصاف پروگرام سے نکالنے کا اقدام ہماری حکومت میں ہوا اور وفاق نے جب قبائلی عوام کو صوبائی بجٹ میں ایڈجسٹ کرنے کا کہا تو صوبائی حکومت نے کیوں بروقت اقدامات نہیں کیے۔

رکن سوبائی اسمبلی نے مزید کہا کہ میں اپنی بنیادی تنخواہ قبائلی عوام کے لیے صحت کارڈ کو دینے کا اعلان کرتا ہوں اور ساتھ میں واضح کیا کہ بجٹ دستاویز میں قبائلی اضلاع کو این ایم ڈیز ( نیولی مرجڈ ڈسٹرکٹس) کا نام دیا گیا ہے، ہم نے انضمام این ایم ڈیز نہیں صوبے کا حصہ بننے کے لیے کیا تھا ہم پر ہر وقت انضمام کا احسان نہ جتایا جائے اگر آپنا نہیں سکتے تو پھر فاٹا کی بحالی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے۔

اس سے قبل 31 مارچ 2022 کو وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ قبائلی اضلاع کا صحت کارڈ چونکہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی اس لیے اب وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے پرزور اصرار پر اسے خیبر پختونخوا حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں 31 مارچ کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے صحت کارڈ منتقلی پر دستخط کیے جس کے بعد اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی دستخط کر کے اس فنڈ کو صوبائی حکومت کو ٹرانسفر کر دیا۔ مزید یہ کہا گیا کہ فنڈ کی منتقلی کے بعد اب صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کے تمام باشندوں کو صحت کارڈ پلس پروگرام میں شامل کرے گی۔

تاہم 20 جون کو صحت کارڈ بارے تھرڈ پارٹی آڈٹ کو پبلک کرتے ہوئے وزیر صحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ وفاقی حکومت نے قبائلی علاقوں کا صحت کارڈ ختم کر دیا اور 30 جون کے بعد قبائلی اضلاع کے باشندوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے قبائلی اضلاع کے صحت کارڈ کے لیے مختص پچیس ارب روپے کا فنڈ ختم کر کے ان اضلاع کے 50 لاکھ لوگوں کو اس سہولت سے محروم کر دیا جو کہ سب سے زیادہ حقدار ہیں وفاقی حکومت ان سے ان کا حق نہیں چھین سکتی، ”قبائلی اضلاع کے لوگوں کے لیے صحت انصاف پلس کارڈ سہولت جاری رکھنے کے لیے آخری حد تک جاؤں گا اور اس مسئلے پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button