خیبر پختونخوا شدید سردی کی لپیٹ میں، کیا ووٹرز آج انتخابی میدان گرم کرنے اپنے گھروں سے نکلیں گے؟
وصال محمد خان
آج خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب ہو رہا ہے۔ 31 مئی 2015 ء کو خیبر پختونخوا میں جو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تھے اس کیلئے پرویز خٹک حکومت نے پرویز مشرف والے بلدیاتی نظام سے استفادہ کیا تھا۔ ایوب دور سے چلے آ رہے یونین کونسلز کو گزشتہ انتخابات میں وارڈز کا نام دے کر ان سے تحصیل اور ضلعی کونسلوں کیلئے نمائندے منتخب کئے گئے۔ پھر ہر یونین کونسل کو آبادی کے لحاظ سے تین، چار اور کہیں پانچ کونسلوں میں تقسیم کیا گیا۔ شہری کونسل کو نیبرہوڈ اور دیہی کو ویلج کونسل کا نام دیا گیا۔ ہر کونسل میں سات جنرل کونسلرز، ایک خاتون، ایک یوتھ، ایک مزدور کسان اور ایک اقلیتی کونسلر کی نشست رکھی گئی۔ سات جنرل کونسلرز میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والا نائب ناظم یا چیئرمین کہلایا۔
حالیہ انتخابات میں ضلع ناظم یا چیئرمین کا عہدہ اور ضلعی اسمبلی ختم کی گئی ہے۔ اب نیبرہوڈ، ویلج اور تحصیل کونسلیں ہوں گی۔ تحصیل کونسل اور سٹی مئیر کا انتخاب براہِ راست عوام سے کرایا جا رہا ہے۔ نیبرہوڈ اور ویلج کونسل کی ہئیت ترکیبی میں تین جنرل کونسلرز، ایک مزدور کسان، ایک یوتھ، ایک خاتون اور ایک اقلیتی نشست رکھی گئی ہے۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں اسی ویلج اور نایبرہوڈ کونسل کے اقلیتی سمیت گیارہ ممبران تھے جبکہ اب جنرل کونسلرز کی تعداد سات کی بجائے تین کر دی گئی ہے جن میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار ویلج یا نیبرہوڈ کونسل کا چیئرمین ہو گا جبکہ یہ تحصیل کونسل کا ممبر بھی ہو گا۔ تحصیل کونسل انہی چیئرمینوں پر مشتمل ہو گی۔
ضلع کی ہر تحصیل ایک حلقہ ہے جس سے تحصیل چیئرمین کا انتخاب سیاسی بنیادوں پر ہو گا۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی نشان پر امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ نے نچلی سطح کے انتخابات بھی جماعتی بنیادوں پر منعقد کرانے کے احکامات دیئے جس میں دیگر تمام جماعتوں نے ویلج اور نیبرہوڈ کونسلوں کیلئے بھی پارٹی نشانات اور ٹکٹس جاری کئے ہیں جبکہ حکمران جماعت اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئی مگر وہاں سے بھی شنوائی نہ ہوئی تو اس نے بنیادی کونسلوں میں اپنا نشان ”بلا” جاری نہیں کیا جس سے مخالفین کو تنقید کا بہانہ ملا مگر حکمران جماعت نے شائد حکمت عملی کے تحت نیبرہوڈ اور ویلج کونسلوں میں اپنے نشان پر امیدوار کھڑے نہیں کئے یا پھر اس حوالے سے تیاری نہیں تھی انتخابی نتائج سامنے آنے پر یہ قضیہ تمام ہو جائے گا۔
جہاں تک ووٹ پول کرنے کے طریقہ کار کا تعلق ہے تو ایک ووٹر کو 6 بیلٹ پیپرز جاری کئے جائیں گے جن میں سفید رنگ تحصیل چیئرمین، سلیٹی رنگ جنرل کونسلر، گلابی رنگ خواتین، سبز مزدور کسان، پیلا (زرد) نوجوان نشست، جہاں اقلیت موجود ہو گی اس کے بیلٹ پیپر کا رنگ براؤن ہو گا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر 37 ہزار 7 سو 52 امیدواروں میں مقابلہ ہو گا۔ تحصیل چیئرمین اور میئر کیلئے 1006 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے تھے جن میں 977 منظور جبکہ 29 مسترد کئے گئے اور 284 امیدواروں نے کاغذات واپس لے لئے۔ اب 689 امیدوارمیدان میں ہیں۔
ویلج اور نیبرہوڈ کونسلوں میں جنرل کونسلر نشستوں کیلئے جمع کرائے گئے 21788 کاغذات نامزدگی میں سے 20648 منظور جبکہ 1140 مسترد کئے گئے اور 1599 امیدواروں نے کاغذات واپس لے لئے۔ اب 19 ہزار 2 سو 82 امیدوار میدان میں ہیں۔
خاتون نشست کیلئے 4220 امیدواروں کے جمع کرائے گئے کاغذات میں سے 3943 منظور اور277 مسترد ہوگئے جبکہ 151 نے کاغذات واپس لے لئے۔ اب 3905 امیدواروں میں مقابلہ ہو گا۔ مزدور، کسان نشست کیلئے 8078 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے جن میں 7659 منظور جبکہ 419 مسترد ہو گئے جبکہ 322 نے کاغذات واپس لے لئے اور اب 7513 امیدوار میدان میں ہیں۔
یوتھ نشست (30 سال سے کم عمر افراد کی نشست) کیلئے 6804 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جن میں 6161 منظور جبکہ 643 مسترد کئے گئے۔ 180 امیدواروں نے کاغذات واپس لئے اور اب 6081 امیدوار میدان میں ہیں۔
اسی طرح اقلیتی نشستوں کیلئے سب سے کم 328 کاغذات جمع ہوئے جن میں 292 منظور اور 36 مسترد ہو گئے۔ 8 نے کاغذات واپس لئے۔ اب 282 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہو گا۔جبکہ بقیہ نشستیں خالی رہ گئیں۔
یوں آج سترہ اضلاع کی 66 تحصیلوں، 2 ہزار 382 ویلج اور نیبرہوڈ کونسلوں کی نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں۔ حالیہ انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں ۔ پہلے مرحلے (آج) کے انتخابات میں تین قبائلی اضلاع خیبر، مہمند اور باجوڑ میں انتخابات ہوں گے جبکہ بقیہ اٹھارہ اضلاع میں 16 جنوری 2022ء کو انتخابات کا انعقاد ہو گا۔
صوبے کے 17 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کیلئے 1 کروڑ 27 لاکھ 25 ہزار سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
پشاور کی 7 تحصیل اور 357 ویلج و نیبرہوڈ کونسلوں کیلئے مجموعی طور پر 19 لاکھ 42 ہزار 220، چارسدہ کی 3 تحصیل اور 146 نیبرہوڈ، ویلج کونسل نشستوں کیلئے 10 لاکھ 6 ہزار 136، نوشہرہ کی 3 تحصیل، 153 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 8 لاکھ 49 ہزار 626، ضلع خیبر کی 3 تحصیل اور 147 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 5 لاکھ 96 ہزار 558، ضلع مہمند میں 3 تحصیل، 65 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 9 لاکھ 28 ہزار 491، مردان کی 5 تحصیل، 231 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 14 لاکھ 38 ہزار 363، صوابی کی 4 تحصیل، 160 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 10 لاکھ 60 ہزار 533، کوہاٹ کی 4 تحصیل، 107 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 6 لاکھ 35 ہزار 170، کرک میں 3 تحصیل، 62 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 3 لاکھ 14 ہزار 77، بنوں کی 6 تحصیل، 116 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 6 لاکھ 76 ہزار 133، لکی مروت کی 3 تحصیل 101 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 4 لاکھ 94 ہزار 723، ڈی آئی خان میں 4 تحصیل، 186 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 8 لاکھ 39 ہزار 452، ٹانک کی دو تحصیل اور 78 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 2 لاکھ 17 ہزار 133، ہری پور کی 3 تحصیل اور 180 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 7 لاکھ 14 ہزار 99، بونیر کی 6 تحصیل، 105 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 8 لاکھ 18 ہزار 996 اور باجوڑ کی 2 تحصیل کونسلوں، 127 نیبرہوڈ، ویلج کونسلوں کیلئے 6 لاکھ 23 ہزار 327 رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔
پولنگ شرح کم رہنے کی توقع ہے۔ صوبہ شدید سردی کی لپیٹ میں ہے جس کے سبب پولنگ کیلئے بمشکل آٹھ گھنٹے کا وقت دستیاب ہو گا جس میں ووٹر کو چھ ووٹ ڈالنے ہوں گے۔ میں ایک مرتبہ پھر دہرا رہا ہوں کہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کیلئے دسمبر اور جنوری قطعاً موزوں نہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کیلئے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ پولنگ کا سامان پولنگ سٹیشنز پر پہنچا دیا گیا ہے۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق امن و امان برقرار رکھنے کیلئے 77 ہزار پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔ 9 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنوں کو اے، بی اور سی کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
کیٹگری اے حساس پولنگ سٹیشنز میں 9 اہلکار، کیٹگری بی سٹیشن میں 4 جبکہ سی میں 3 اہلکار تعینات ہوں گے جن کی مدد کیلئے کوئیک رسپانس فورس موجود ہو گی جبکہ کسی ہنگامی صورتحال میں الیکشن کمیشن فوج کو بھی طلب کر سکے گا۔
بیرسٹر سیف کا پولیس کی جانب سے رواں برس سماج دشمن عناصر کیخلاف کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پولیس نے اس سال صرف نومبر کے مہینے میں 127 کلوگرام ہیروئن، 77 کلو آئس، 1900 لیٹر شراب اور اڑھائی ہزار کلوگرام چرس پکڑی۔ رواں برس پولیس نے 1 لاکھ 82 ہزار 5 سو 93 غیرقانونی ہتھیار قبضے میں لئے۔
صوبائی حکومت نے عوام کو جرائم پیشہ افراد اور سماج دشمن عناصر سے محفوظ رکھنے اور ان تک فوری رسائی کیلئے ”ابابیل” کے نام سے نئی فورس قائم کر دی ہے جس کا آغاز وزیراعلیٰ محمود خان کے ہاتھوں ہو چکا ہے۔ تھانوں میں عوام کو سہولیات کی فراہمی کیلئے آسان انصاف مراکز کے قیام اور عوام کی راہنمائی و مدد کیلئے مددگار تعینات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
ابابیل فورس کے ارکان جرم کی صورت میں سب سے پہلے کرائم سین پر پہنچیں گے۔ ان اہلکاروں کو 200 موٹرسائیکل فراہم کر دی گئی ہیں جبکہ ان کی یونیفام میں کیمرے بھی نصب ہوں گے۔ 400 اہلکاروں کے ساتھ اس فورس کا آغاز پشاور سے کر دیا گیا ہے جبکہ اس کا دائرہ کار مزید چھ بڑے شہروں تک بڑھایا جائے گا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے سیزفائر خاتمے کے اعلان پر خدشات کے پیش نظر انتظامیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ لکی اور ٹانک میں پولیو اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمے داری ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔ افغانستان میں داعش کا خطرہ ہے، ناراض طالبان اور جرائم پیشہ افراد ان میں شامل ہیں۔
بیرسٹر سیف کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر سول اداروں کی ذمہ داری ہے تاہم ضرورت پڑنے پر الیکشن کمیشن مانیٹرنگ کیلئے فوج کو بلا سکتا ہے لیکن فی الحال ایسی کوئی صورتحال موجود نہیں، الیکشن کمیشن ہمارے ساتھ رابطے میں ہے۔
دوسری جانب حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران متعدد وفاقی، صوبائی وزرا اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن نوٹس جاری کر چکا ہے جن میں وزیراعظم عمران خان، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کو ایک مرتبہ پچاس ہزار روپے جرمانہ ہونے کے بعد انہوں نے دوبارہ قواعد کی خلاف ورزی کی جس پر انہیں سخت نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے انہیں آزاد کشمیر الیکشن میں بھی الیکشن کمیشن کے نوٹس کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر وہ کسی نوٹس کا نوٹس لیتے ہیں اور نہ ہی خاطر میں لاتے ہیں۔ صوبائی وزراء کامران بنگش، وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا، وزیراعلیٰ کے فوکل پرسن محمد آصف خان، ایم این اے ارباب شیر علی خان، باجوڑ سے ڈیڈک چیئرمین اور رکن صوبائی اسمبلی اجمل خان اور صوبائی وزیر انور زیب خان، بنوں سے شاہ محمد وزیر وغیرہ، پی ٹی آئی پشاور ریجن کے صدر فضل محمد خان ایم این اے، پیپلز پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی اور اے این پی کے سینئر نائب صدر، سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کو بھی نوٹس جاری ہو چکے ہیں مگر ان نوٹسز کے خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے بلکہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے واقعات تیزی سے بڑھے ہیں۔
سپیکر اسد قیصر کی ایک مبینہ آڈیو جاری ہو چکی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس 70 کروڑ روپے کے فنڈز موجود ہیں اور اڑھائی ارب کے مزید فنڈز آئیں گے اس لئے ووٹ پی ٹی آئی امیدواروں کو دیئے جائیں، دیگر امیدوار کامیاب بھی ہوئے تو انہیں فنڈز نہیں ملیں گے۔ بالکل یہی بات علی امین نے بھرے جلسے میں کی تھی جس پر انہیں پچاس ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ سپیکر کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔
واضح رہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سٹی کونسل کی میئر شپ کے امیدوار عمر خطاب شیرانی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ عمر خطاب شیرانی پر رات 12 بجے گھر کے باہر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔