”ویکسین لگوانے افغان خاتون کو بھیجا، سرٹیفیکیٹ میرے نام سے جاری ہوا”
خیبر پختونخوا میں کورونا ویکسین کے جعلی سرٹیفیکیٹ کی اطلاعات موصول ہونے لگیں، جعلی سرٹیفیکیٹس ہولڈر افراد کا کہنا ہے کہ جعلی کمپیوٹرائز سرٹیفیکیٹ کے حصول کے بعد انہیں ویکسین بھی نہیں لگائی جاتی جس کی وجہ سے انہیں کورونا سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ انہیں جعلی سرٹیفیکیٹ کا علم ہے جس پر انہوں نے جرم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی بھی کی ہے۔
جعلی کورونا ویکسین سرٹیفیکیٹس کے حوالے سے ٹی این این کو دو ایسے کیسز موصول ہوئے ہیں جہاں پر محکمہ صحت کے عملے نے کورونا ویکسین لگائے بغیر نادرا کے ڈیٹا سسٹم میں ان کی انٹری کرا دی ہے۔
بونیر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے نام نہ ظاہر کی شرط پر ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے جعلی سرٹیفیکیٹ کیلئے ایک دوست کو بتایا جس کے حصول کے لئے اُنہوں نے ایک بندے کا موبائل نمبر دیا جس پر میں نے کال کی اور مجھے کہا گیا کہ آپ اپنے شناختی کارڈ کی تصویر واٹس ایپ کر دیں جس کے کچھ لمحوں بعد انہیں سرٹیفیکیٹ موصول ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل انہوں نے اس لئے کیا کہ حکومت کی جانب سے اعلانات ہو رہے تھے کہ ویکسین نہ لگانے والوں کے موبائل سمز بند کئے جائیں گے اور سفر پر بھی باپندی لگائی جائے گی، "میں دو تین بار کورونا ویکسینشن مرکز گیا، وہاں پر کافی رش تھا اور رش کی وجہ سے میرا وقت ضائع ہو رہا تھا تو اس لئے میں نے شارکٹ کٹ استعمال کیا۔”
جعلی کورونا ویکیسین سرٹیفیکیٹ کے حصول میں صرف مرد نہیں بلکہ خواتین بھی شامل ہیں، ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون رضیہ (فرضی نام) نے ویکیسین لگائے بغیر جعلی سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے لیکن اب وہ پچھتا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
افغان پناہ گزینوں کی کورونا ویکسینیشن کے عمل سے شکایات
غیررجسٹرڈ افغان مہاجرین کی ویکسینیشن کا طریقہ کار کیا ہو گا؟
قبائلی خواتین کی اکثریت کورونا ویکسین سے محروم، وجہ کیا ہے؟
رضیہ کہتی ہیں’ کہ وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اور وہ ویکسین سے ڈرتی تھیں جبکہ ہسپتال میں سرٹیفیکیٹ کے بغیر علاج نہیں کیا جاتا تو اس لئے وہ مجبور ہوئیں کہ ایک جعلی سرٹیفیکیٹ حاصل کریں، کورنا وبا سے اموات کی شدت سے انہیں احساس ہوا کہ ویکسین کے بغیر جان بچانا مشکل ہے لیکن بدقسمتی سے جعلی سند کے حصول کے بعد انہیں دوبارہ ویکسین بھی نہیں لگ سکتی اور انہیں خدشہ ہے کہ کہیں وہ اس وائرس کا شکار نہ ہوں۔
رضیہ کا کہنا ہے، "میں نے ایک شخص کو سرٹیفیکیٹ کے حصول کیلئے کہا تو انہوں کہا کہ اس کے لئے پیسے بھی لگیں گے اور آپ کی جگہ کسی دوسری خاتون کو ویکسین لگائی جائے گی تو میں نے ویکسین لگوانے کے لئے اپنی جگہ ایک افغان خاتون کو بھیجا جبکہ سرٹیفیکیٹ میرے نام سے جاری ہوا۔”
کورونا ویکسین نہ لگانے کے خلاف حکومت نے عوام کو آگاہ کیا کہ سرٹیفیکیٹ کی عدم موجودگی میں کوئی بھی شہری ہسپتال میں مفت علاج، لائسنس کا حصول، بینک سے رقم کی وصولی، سرکاری ملازمین تنخواہوں کی وصولی اور ملک کے اندر ہوائی جہاز میں سفر کی سہولت سے محروم کر دیا جائے گا مگر 24 ستمبر کو ویکسین لگانے کی مدت میں توسیع کی گئی۔
صوبائی حکومت نے کہا کہ 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو 31 اکتوبر جبکہ 18 سے کم عمر بچوں کیلئے 15 نومبر تک توسیع دی جائے گی مگر ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا۔ سرٹیفیکیٹ کے حصول کیلئے آج کل نادرا دفاتر پر لوگوں کا کافی رش دیکھنے کو ملتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے نادرا دفتر کے سامنے ویکسین سرٹیفیکیٹ کی حصول کے انتظار میں کھڑے خدابخش کا کہنا ہے کہ وہ اس لئے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سفر اور دیگر سہولیات کے حصول میں انہیں آسانی ہو۔
وہاں پر موجود ایک خاتون نے بتایا کہ انہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس کفالت پروگرام کے تحت پیسے منظور ہوئے ہیں مگر بغیر سرٹیفیکیٹ کے وہ پیسے نہیں دیئے جا رہے اس لئے وہ یہاں پر سند حاصل کرنے آئی ہیں۔
سوات شیرآباد کے رہائشی سلیم خان نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں روزگار کرتے ہیں اور وہاں پر ایک ہوٹل میں قیام کرتے ہیں لیکن پچھلی دفعہ انہیں وہاں پر ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ ان کے پاس سرٹیفیکیٹ نہیں تھا۔
سلیم خان کہتے ہیں کہ ویکسین سرٹیفکیٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں تھے کہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں، کہتے ہیں کہ اب وہ مجبور ہیں کہ کورونا وائرس ویکیسن کی سند حاصل کریں تاکہ وہ اپنا روزگار جاری رکھ سکیں۔
سوات نادرا دفتر کے سامنے قطار میں کھڑی ایک سرکاری خاتون ملازمہ کا کہنا ہے کہ انہیں کہا گیا کہ تنخواہ تب ملے گی جب آپ ویکسین سرٹیفیکیٹ حاصل کریں، کہتی ہیں کہ اس کے علاوہ اکاؤنٹ بند ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف یہی لوگ قطاروں میں سرٹیفیکیٹس کے حصول کیلئے انتظار کرتے ہیں تو دوسری طرف جعلی سرٹیفیکیٹس کے اجراء کی بھی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام بھی کورونا سرٹیفیکیٹ کے حصول میں جعلی سرٹیفیکیٹ اور بے ضابطگیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں وسائل اور افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے مسائل سامنے آئے لیکن حکومت نے ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی ہے۔
خیبر پختونخوا میں وباؤں سے بچاؤ کے پروگرام ای پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر محمد عارف نے ٹی این این کو بتایا کہ اُن کے پاس اتنے وسائل نہیں اور اس وقت صوبہ بھر میں کورونا بچاؤ کی ویکسین کیلئے 1 ہزار مراکز، 40 ماس ویکسینیشن سنٹرز اور ہر ضلع میں موبائل ٹیمز موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے نادرا کے ڈیٹا انٹری پاس ورڈ ہیک ہونے کی وجہ سے جعلی ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ جاری ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔
ڈاکٹر عارف نے کہا کہ جعلی سرٹیفیکیٹ کے واقعات مردان، صوابی، پشاور اور دیگر اضلاع سے بھی رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد ہم نے کورونا وبا پر قابو پانے کے وفاقی ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کو آگاہ کیا جنہوں نے ایف آئی اے کو رپورٹ ارسال کر کے ملوث افراد کی نشاندہی کی ہے۔
ڈاکٹر عارف کہتے ہیں کہ جعلی سرٹیفیکیٹ کے اجراء میں ملوث افراد میں مردان اور صوابی کے اہلکار معطل کئے گئے ہیں جبکہ ایف آئی اے کی مزید کارروائیوں سے دیگر حقائق بھی سامنے آ جائیں گے، این سی او سی کے نام پر محکمہ صحت کے ڈیٹا انٹری دفاتر کو جعلی کالز موصول ہو رہی ہیں اور انہیں اُن کے اکاؤنٹ کی تصدیق کا کہا جاتا ہے۔
کہتے ہیں، "کل مجھے سوات سے کورونا ویکسینیشن سنٹر کے اہلکاروں نے کال کر کے کہا کہ انہیں این سی او سی کے نام پر کال موصول ہوئی اور کہا کہ وہ انہیں کورونا ویکسینشن ویب سائٹ کی تصدیق کروائیں جس کے لئے انہیں پاس ورڈ بتانا ہو گا، پھر میں نے اہلکاروں کو تاکید کی ہے کہ این سی او سی کو مجھ سے رابطہ کرنا ہو گا پھر اُن کے ساتھ اکاؤنٹ شیئر کیا جائے گا۔”