بلاگزعوام کی آواز

سوات کی تبسم عدنان خواتین کے عالمی امن ایوارڈ کیلئے نامزد

شہزاد نوید

سوات سے تعلق رکھنے والی تبسم عدنان کو امن کے عالمی ایوارڈ کے لئے نامزد کر دیا گیا، تبسم عدنان سوات میں خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم ہیں اور اس مقصد کے لئے اپنی تنظیم ”خویندو جرگہ” کی سربراہی بھی کر رہی ہیں۔

دنیا میں امن کے قیام کی کوششوں کے لئے سرگرام امریکی ادارے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس نے پاکستان میں ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سیدوشریف سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن تبسم عدنان کو وومن بلڈنگ پیس ایوارڈ کی فائنلسٹس کے طور پر منتخب کیا ہے

یہ عالمی ایوارڈ ہر سال امن ساز خواتین کو دیا جاتا ہے جہنوں نے اپنے ملک میں امن کے لئے خدمات سر انجام دی ہوں، اس سال یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کو 30 سے زائد ممالک سے نامزدگیاں موصول ہوئی تھیں۔

امن کے عالمی ایوارڈ پر نامزدگی کے حوالے سے تبسم عدنان نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امن کے عالمی ایوارڈ کے لئے نامزدگی میرے لئے باعث فخر ہے، "جس ایوارڈ کے لئے مجھے نامزد کیا گیا ہے اُس پر میں کافی خوش ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ جو تحریک میں نے شروع کی ہے یہ ایوارڈ میری کوششوں کا اعتراف ہے، اب اگر مجھے ایوارڈ ملے یا نا ملے لیکن نامزدگی ہی میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔”

تبسم عدنان کہتی ہیں کہ خواتین کی جنگ لڑنے کے لئے انہوں نے ‘خویندو جرگہ’ کا آغاز کیا، ”میرے لئے کافی مشکل تھا اس جرگے کو آگے بڑھانا کیونکہ مجھے علم نہیں تھا کہ جرگہ کیسے کیا جاتا ہے اور کیا کرتے ہیں نا ہی مجھے طور طریقوں کے بارے میں آگاہی تھی، سوات دہشت گردی سے متاثرہ علاقہ رہ چکا ہے، طالبان یہاں کے سماجی و معاشرتی اطوار پر کافی اثر انداز ہوئے، اب بھی یہ علاقہ مکمل خالی نہیں بلکہ کونوں کونوں میں یہ لوگ چھپے ہوئے ہیں۔”

وہ کہتی ہیں کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں خواتین کے لئے ایک جرگہ قائم کرنا ایک بہت بڑا چلینج تھا، ”میرے خواتین جرگے کو پہلے کسی نے قبول ہی نہیں کیا، لوگ میرا مذاق اُڑاتے تھے، مجھ پر تنقید کیا کرتے، مجھ پر فتوے لگائے جاتے حتیٰ کہ مجھ پر فائرنگ بھی کی گئی، لوگ کھلا کھلا دھمکیاں دیتے کہ اس کو تو ڈنڈوں سے مارنا چاہئے، یہ عورتوں کا جرگہ نہیں کرسکتی، ہم نے ہمت نہیں ہاری اور مظلوم خواتین کے لئے آواز اُٹھانا شروع کر دی، خواتین کے مسائل حل ہونا شروع ہوئے تو دیگر خواتین بھی ہمارے پاس آنے لگیں۔”

تبسم عدنان کے مطابق اس معاشرے کی مظلوم خواتین کا اب یقین خاص ہو گیا کہ اس جرگے میں ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ہمارے فیصلے آسانی سے کئے جا سکتے ہیں، "طالبان کے دور میں بھی سب سے زیادہ خواتین نے چندہ دیا تھا کیونکہ ہم خواتین کے حقوق کی بات کرتے تھے، عدالتوں کے چکر لگانے سے خواتین بے زار ہو چکی تھیں، اسی لئے اُن کے پاس خویندوں جرگہ کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا، ہم ایک دو دن میں مسئلہ حل کروا دیتے ہیں تو ظاہری بات ہے خواتین کا رجحان اس طرف زیادہ ہو گا۔”

تبسم عدنان کا کہنا ہے کہ اس ایوارڈ کے لئے انہوں نے بذات خود اپلائی نہیں کیا، ہو سکتا ہے ان کے بیٹے، دوست یا کسی دوسرے رشتہ دار نے کیا ہو، ہر ایوارڈ کا اپنا ایک کرائی ٹیریا ہوتا ہے اور میں سمجھتی ہے کہ امن کے لئے اور خواتین کے لئے ہماری محنت کو سراہا جا رہا ہے، جو کوئی بھی امن کے لئے کام کرتا ہو وہ اس ایوارڈ کے لئے اپلائی کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘خویندو جرگہ’ میں وہ ‘سورہ’ یا ونی کے کیسز پر زیادہ کام کرتے ہیں، اسی طرح انسانی سمگلنگ، گھریلو تشدد کے واقعات پر وہ کام کرچکے ہیں، "ہم نے گزشتہ دنوں ایک خاتون کو اس کے شوہر سے دس لاکھ روپے دلوائے ہیں جو سعودی عرب میں مقیم تھا اور اپنی بیوی کو پوچھتا بھی نہیں تھا۔”

تبسم عدنان کا دعوی ہے کہ خواتین کچھ بھی کر سکتی ہیں بس لڑنے کے لئے ہمت ہونی چاہئے اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانی چاہئے، "میں ملک بھر کی خواتین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھائیں، ہمت سے، بلاخوف اپنے حق کے لئے لڑنا سیکھیں کیونکہ جب تک ہم خود کھڑے نہیں ہوتے دوسرا کوئی اور ہمارے لئے آواز نہیں اُٹھاتا۔”

وہ کہتی ہیں کہ مجھے بھی خوف تھا کہ شاید اس میں میری جان چلی جائے لیکن میں ثابت قدم رہی اور اپنی آواز، مظلوم خواتین کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک پہچاتی رہی اور مرتے دم تک اپنی کوشش کرتی رہوں گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button