دو صدیوں بعد بھی بہاولپور کے صادق گڑھ محل کی جاذبیت برقرار
گل حماد فاروقی
ریاست بہاولپور کے سابق حکمران نواب صادق محمد خان پنجم نے تاریحی محل صادق گڑھ پیلیس کو 1882 میں تعمیر کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں روزانہ 1500 مزدور، کاریگر وغیرہ کام کرتے تھے جو دس سال میں مکمل ہوا۔ یہ محل 126 ایکڑ زمین پر محیط ہے جو احمد پور شرقی کے قریب ڈیرہ نواب صاحب میں واقع ہے۔ اس محل کو اٹلی کے ماہرین نے ڈیزائن کیا تھا جس پر اس زمانے میں 1500000 روپے لاگت آئی تھی۔
سفید رنگ کے اس تاریحی محل نے دو صدیاں گزرنے کے باوجود اپنی جاذبیت اور اہمیت نہیں کھوئی۔ اس محل میں نواب صاحب کا دربار بھی لگتا تھا جہاں وہ محتلف مقدمات اور لوگوں کے درمیان تنازعات کے فیصلے کیا کرتے تھے اور فیصلہ کرنے کے بعد تخت کے نیچے سے ہی خفیہ راستے سے دوسرے محل میں داخل ہوتے۔
اس تاریخی محل میں دنیا کے محتلف حکمرانوں کے علاوہ بر صغیر پاک و ہند کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن، قائد اعظم محمد علی جناح، ایران کے شہنشاہ محمد رضا پہلوی وغیرہ نے بھی نواب صاحب کے مہمان کے طور پر قیام کیا ہے۔ صادق گڑھ کے اس طلسماتی محل کے احاطے میں چار عمارتیں ہیں، اس محل میں 120 کمرے اوپر ہیں جن کے ساتھ اٹیچ باتھ روم اور کچن بھی ہے اور پچاس کمرے زیر زمین یعنی بیسمنٹ میں ہیں۔ یہ محل تین منزلوں پر مشتمل ہے اور ہر منزل کیلئے باقاعدہ لفٹ استعمال ہوتا تھا جو جرمنی سے منگوائے گئے تھے۔ اس محل میں ہر ملک کے سربراہ کیلئے باقاعدہ کمرے بنے ہوئے ہیں جن کو ان کے نام سے منسو ب کیا گیا ہے مثلاً ٹرکش روم، برطانیہ روم، چائنا روم وغیرہ۔ 52 ممالک کے سربراہان اس میں بیک وقت قیام کر سکتے تھے جن کیلئے دو دو کمرے اور باتھ روم، کچن کی بھی سہولت موجود ہے۔ پانچ مربوں پر اس کی صرف چار دیواری ہے۔
نواب صاحب کا تخت بلجیئم سے منگوایا گیا جسے لانے کیلئے کراچی سے یہاں تک ریلوے کی پٹڑی بچھائی گئی۔ یہ تخت کراچی میں تین ماہ پڑا تھا۔ اس تخت پر سونے کا پانی اور سونا چڑھا ہوا ہے اکثر لوگ یہاں آ کر اس تخت سے سونا چراتے ہیں۔ اس محل میں زیر زمین ایک بینک بھی ہے جس کے لاکر وغیرہ انگلینڈ سے منگوائے گئے تھے اس کے ساتھ سینما بھی ہے اور بجلی گھر، اور عملہ کا دفتر بھی ہے۔ یہاں کنویں ہیں، تالاب ہیں، بارہ دری ہے اور شیر رکھنے کیلئے باقاعدہ جگہ بنائی گئی تھی، نواب صاحب کی گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ بھی محل کے ساتھ متصل عمارت میں تھی۔
نیچے منزل میں سیڑھی بھی جاتی ہیں اور اس کے عقب میں دیگر محلات ہیں جو نواب صاحب کے اہل خانہ کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ سعید کلاچی اس محل کے ترجمان ہیں جو آنے والے سیاحوں اور مہمانوں کو تفصیلات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک ڈول ہاؤس ہے یعنی گڑیا کا گھر۔ نواب صاحب کی لاڈلی بیٹی تھی، اس کی گڑیاؤں کیلئے بھی چھوٹا سا محل بنایا گیا ہے جس میں ہر چیز چھوٹی ساخت کی بنائی گئی ہے۔ راحت محل میں کنیزیں کام کرنے والی خواتین، مزدور، نوکر چاکر وغیرہ رہتے تھے، زنان خانے ہیں، پانی رکھنے کی جگہ الگ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو جب 1972 میں اس محل کے دورے پر آئے تھے تو ان کا نواب صاحب کے ساتھ بے نظیر کے رشتے پر کوئی تنازعہ پیدا ہوا جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے اس محل کو بند کر دیا جس کے بعد اس کا زوال شروع ہوا۔
اس محل کے ترجمان سعید کلاچی کے مطابق 1903 میں جب نواب صاحب کو نہایت کم عمر میں تخت پر بٹھایا گیا تو ان کی والدہ پردے کی پیچھے بیٹھ کر فیصلے کرتی تھیں اور سامنے ان کا کم عمر بیٹا نواب کے طور پر ان فیصلوں کو عوام کے سامنے سنا کر اس پر عمل درآمد کرواتا تھا۔
اس محل کا بیرونی حصہ سفید سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے۔ اس محل کے دونوں کونوں پر نہایت خوبصورت گنبد بھی ہیں جو اس کی شان کو مزید بڑھاتے ہیں۔ اس محل کے محراب نما دروازے آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ محل کے ساتھ ریاستی دور کا سیکرٹریٹ اور نہایت خوبصورت مسجد بھی واقع ہے جو مغل طرز تعمیر کا بہترین شاہکار ہے۔ اس کے ساتھ دو محلات اور بھی ہیں جن میں رہایشی مکانات، سینما اور جم خانہ موجود تھے۔ بعض روایات کے مطابق اس محل میں اسلحہ سازی کا کارخانہ، سونا بنانے کی بھٹی، واٹر فلٹریشن پلانٹ، بجلی گھر اور گاڑیوں کا مستری خانہ بھی موجود تھا۔ یہ محل اب بھی طرز تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔
بہاولپور دستکاری، کاریگری، خطاطی وغیرہ کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس محل کی سنہری چھت، لمبے ستون جو سونے سے سجائے گئے ہیں، خوبصورت برآمدہ اور بہت بڑا فانوس، جسے برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ نے نواب صاحب کو بطور تحفہ بھیجا تھا، اس محل کی شان کو مزید بڑھاتا ہے جس سے سلطنت عثمانیہ دور کے محلات بھی شرما جائیں۔
اس محل کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں خانہ کعبہ کا غلاف ڈیڑھ سو سال تک بنتا تھا اور اس کا پرانا غلاف اتار کر اسے تبرک کے طور پر اس محل میں آویزاں کیا جاتا تھا۔ سعید کلاچی کے مطابق نواب صاحب جب اس غلاف کی زیارت کیلئے آتے تو واپسی پر پیٹھ کر کے نہیں جاتے تھے بلکہ الٹے پاؤں واپس پیچھے کی طرف جا کر باہر نکل جاتے تھے۔ آج کل اس تاریخی محل میں سے فرنیچر، ہتھیار، ورثہ، فانوس، پینٹنگ اور دیگر قیمتی سامان غائب ہیں جس کی وجہ سے یہ محل ویراں لگتا ہے۔
ریاست بہاولپور کے پاکستان میں ادغام ہونے کے بعد نواب صاحب کے محلات کو چالیس سال بعد حکومت پاکستان نے اپنی تحویل میں لے لیا جو زیادہ تر فوج کے پاس ہیں۔ جس ذوالفقار علی بھٹو نے اس محل کو بند کروایا تھا تو اس کے بعد اس کا زوال شروع ہوا۔ اس تاریخی محل کو دیکھنے کیلئے نہ صرف ملک کے کونے کونے سے سیاح آتے ہیں بلکہ بیرون ممالک سے بھی طلباء، محققین بھی کثیر تعداد میں آتے ہیں۔ مگر زیادہ عرصہ بند رہنے کی وجہ سے اس محل میں بہت بڑی تعداد میں چمگاڈروں نے زیر زمین منزل میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور سانب بچھو کی وجہ سے یہ بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتا ہے۔ اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے طلباء طالبات نے اس محل کی سیر کی اور اس پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔
مقامی لوگوں، سیاحوں اور ماہرین کا حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں سے بھی مطالبہ ہے کہ اس تاریخی ورثے کی حفاظت اور مرمت کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں اور اسے مزید تباہی سے بچایا جائے، نیز یہاں آنے والی سڑکوں کی حالت کو بھی بہتر کیا جائے مبادہ آنے والی نسلوں کیلئے اس تاریخی محل کی صرف تصویریں سوکھے ہوئے پھولوں کی طرح کتابوں میں ملیں گی۔
اس محل میں ایک بہت بڑی لائبریری بھی موجود تھی جس میں بیس ہزار تک کتابیں رکھی گئی تھیں مگر اب اس کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اس محل کی ضروری مرمت کر کے اسے سیاحوں کیلئے کھول دیا جائے تو سیاحوں سے ٹکٹ کی مد میں ملنے والی رقم سے بھی اس کی مرمت کا کام آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔