‘مجھے نہیں معلوم وہ کیوں میری بیٹی کو اغوا کرکے لے جارہا تھا’
سدرا آیان
‘میں نماز پڑھ رہی تھی اور میری چھوٹی بیٹی دروازے سے باہر نکلی کہ اس دوران اسے کسی نے اٹھالیا،اس دن ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ میری چھوٹی بہن ہمارے گھر آرہی تھی اور راستے میں اس نے کسی انجام شخص کے ساتھ میری بیٹی کو دیکھا، وہ میری بیٹی کو اغوا کررہا تھا لیکن میری بہن میری بیٹی کو بچا کر گھر لے آئی’
یہ واقعہ پشاور سے تعلق رکھنے والی نمرہ کے ساتھ پیش آیا لیکن وہ اس بات پر خدا کا شکر گزار ہے کہ اس کی بیٹی صحیح سلامت رہی۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے نمرہ نے بتایا کہ ‘مجھے نہیں معلوم کہ وہ شخص کیوں میری بیٹی کو اغوا کرکے لے جارہا تھا لیکن مجھے ڈر ہے کہ خدانخوستہ اگر میری معصوم بچی کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لیکر جاتا تو پتہ نہیں مجھ پر اور میری بیٹی پر کیا قیامت گزرتی’
وہ کہتے ہیں آجکل بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں اس لئے اس واقعے کے بعد میں بہت ڈر اور اپنے بچوں کی حفاظت کرنے میں کافی حد محتاط ہوگئی ہو جبکہ اب تو میں نماز اور دوسرے کام کے وقت گھر کا دروزاہ بند کردیتی ہو تاکہ بچے باہر نہ نکل سکے ۔
والدین بچوں کو جنسی زیادتی سے بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں
پشاور سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن سومیا خلیل کے مطابق ملک بھر میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی کے واقعات افسوسناک ہیں جبکہ والدین کوچاہیے کہ وہ اس بارے بچوں کی روزمرہ مصروفیات پر نظر رکھیں اور ان کو اگاہ کرے کہ وہ کسی طرح سے اپنے آپ کو اس قسم کے واقعات کو بچاسکتے ہیں۔
سومیا کے بقول ‘ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کو گھر میں اتنا دبا کر رکھتے ہیں کہ بچے ڈر کے مارے اپنے والدین کے ساتھ کچھ بھی شئیر نہیں کرسکتے یہی وجہ ہے کہ بچے باہر پیش آنے والے واقعات گھر والوں کو نہیں بتا سکتے اور اس وجہ سے باہر کے لوگ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے لئے راستہ ڈھونڈ نے کی کوشش کرتے ہیں۔’
‘بچوں کا خیال رکھنا انتہائی آسان کام ہے ، اگر والدین اپنے بچوں کو ایک گھنٹہ کا وقت بھی دے اور اپنے بچوں کا ذہن بلکل صاف کردیتے ہیں تو بچے بغیر کسی ڈر کے ماں باپ کے ساتھ ہر قسم کی بات شئیر کرنے میں شرم او ڈر محسوس نہیں کرینگے اور خود کو محفوظ رکھے گے۔’
دوسری جانب مردان میں شعبہ عمرانیات( سوشیالوجی) کے طالبعلم تنظیم عالم کے مطابق بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے واقعات معاشرے کیلئے بہت مشکلات پیدا کردیتی ہیں جبکہ اس قسم کے زیادہ تر واقعات میں اکثر اپنے رشتہ دار ہی ملوث ہوتے ہیں۔
سروس اینڈ ریسرچ کے مطابق ایسے واقعات میں اکثر اپنے خاندان اور جان پہچان کے 90 فیصد لوگ ملوث ہوتے ہیں جبکہ باقی 10 فیصد اجبنی لوگ ہوتے ہیں۔
عالم کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری خواتین میں یہ شعور اجاگر ہوجائے کہ وہ اپنے بچوں کو سمجھائے کہ اگر کسی جگہ میں کوئی ان کو ہراساں کرتے ہیں تو وہ بغیر کسی ڈر کے ماں باپ کو بتائے کہ فلاں جگہ میں فلاں شخص نے مجھ اس طرح ٹچ کیا تاکہ ماں باپ بروقت آپ کی حفاظت کے لئے اقدامات اٹھائیں۔