اشرف غنی کے بعد افغانی کرنسی کی قدر میں بھی کمی
محمد طیب
کابل پر افغان طالبان کے قبضے اور امن عامہ کی غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں افغانی کرنسی کی قدر میں بھی مسلسل کمی آنے لگی ہے جس کی وجہ سے خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے بڑے شہروں پشاور اور کوئٹہ سمیت افغان بارڈر پر کرنسی کے کاروبار کرنے والے تاجروں کو کاروبار شدید متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ مالی خسارے کا بھی سامنا ہے۔
افغانی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی سے کرنسی کے کاروبار کرنے والے صرافوں نے افغانی کرنسی سے منہ موڑ لیا ہے اور دیگر ممالک کی کرنسی کو ترجیح دینے لگے ہیں، دوسری جانب پشاور اور کوئٹہ، کراچی اور افغان سرحد کے قریب تجارتی راستوں پر قائم صرافہ مارکیٹ میں کرنسی کا کاروبار کرنے والے تاجروں نے افغان کرنسی کی خریدوفروخت بند کر دی جس کے باعث آئندہ چند روز میں افغان کرنسی کی قیمت مزید گرنے کاخدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
گزشتہ چند روز کے دوران کرنسی کی قیمت اچانک گرنے کے باعث کاروباری افراد نے کروڑوں روپے کا نقصان کیا، اس سلسلے میں جب پشاور کی صرافہ مارکیٹ چوک یادگار کے شکیل، رضوان اور دیگر کاروباری افراد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں غیریقینی صورتحال کے اثرات براہ راست افغان کرنسی پر بھی پڑنے لگے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت تھی تو اس وقت افغانی کرنسی کی خریدوفروخت اور قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا جس کی بڑی وجہ افغانستان میں سیاسی حکومت کا مستحکم ہونا بتائی جاتی ہے، روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا رہا، صوبے کے دوردراز اضلاع سے بھی لوگ افغانی کرنسی تبدیل کرنے اور خریدنے کیلئے آتے تھے، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں افغان روپے کی قدر میں اضافہ ہوا تھا، کابل میں سیاسی تبدیلی سے قبل تجارتی اور کاروباری حضرات افغان کرنسی کے کاروبار کو ترجیح دے رہے تھے کیونکہ افغانستان میں پاکستانی کرنسی کی حوصلہ شکنی ہو رہی تھی اور پاکستانی کرنسی میں کاروبار پر پابندی تھی۔
شکیل کے مطابق افغان تجارتی اور کاروباری طبقہ ملکی پالسیوں کے باعث افغانی کرنسی کی تجارت کرتا تھا تاہم گزشتہ 15 اگست کو اتوار کے روز پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں پشاور اور کوئٹہ کی صرافہ مارکیٹوں میں افغان کرنسی کی قدر اچانک گر گئی جس کی وجہ سے افغانی کرنسی کا کاروبار یکدم بند ہو گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانی کرنسی کی قیمت 30 فیصد سے زائد گر گئی جس کے باعث کرنسی کے کاروبار کرنے والے تاجروں کو ایک ہی دن میں لاکھوں روپے نقصان اٹھانا پڑا جبکہ افغان کرنسی تبدیل ہونے کی اطلاعات کے باعث اس کاروبار سے وابستہ تاجروں کو کروڑوں روپے نقصان اٹھانا پڑے گا، ”طالبان کی جانب سے کابل سمیت ملک کے مختلف صوبوں پر قبضہ کرنے کے بعد رواں ہفتے چوک یادگار پشاور میں کرنسی کا کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے، غیریقینی صرتحال کی وجہ سے افغان کرنسی کی خریدوفروخت مکمل طور پر بند ہے اور مارکیٹ میں کرنسی خریدنے یا فروخت کرنے کیلئے کوئی رابطہ نہیں کر رہا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ طالبان کے کابل فتح کرنے کے بعد پیر کے روز افغان شہریوں اور پاکستانی شہریوں نے افغانی کرنسی کی خریدوفروخت نہ کرنے کو ترجیح دی ہے، افغان کرنسی کی قدر اتوار کے روز فتح کابل سے قبل 1 روپے تھی جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ 1 روپے 70 پیسے رہی ہے، نازک صورتحال کاروبار نہ ہونے کے باعث افغانی کرنسی پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جو آئندہ چند روز میں مزید خراب ہونے کا خدشہ موجود ہے، صرافہ مارکیٹ میں کاروبار کرنے والوں کے پاس لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے افغانی پڑے ہیں تاہم افغانی روپے کی قدر میں اچانک کمی ہونے کے باعث اب مزید نقصانات کا اندیشہ بھی ہے۔
تاہم دونوں ممالک کے کاروباری اور تجارتی طبقوں نے امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام اور عوام کا اعتماد بحال ہونے سے دونوں ممالک کے مابین تجارت میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کی کرنسی کی قدر میں بھی اضافہ یقینی ہے۔