لڑکے کیوں کہتے ہیں کہ انہیں کام نہیں مل رہا؟
سدرہ ایان
بچپن ہی سے نہ تو مجھے شاپنگ کرنے کا شوق رہا ہے اور نہ ہی مارکیٹ جانے کی عادت رہی ہے پھر بھی اگر کبھی کبھار کوئی مجھے اپنے ساتھ زبردستی لے جائیں تو وہ شاپنگ کرتے ہیں جب کہ میں لوگوں کے چہرے تکتی ہوں اور ان میں چپھی کہانیاں تلاشتی ہوں۔
پچھلے دنوں اپنی ایک دوست کے ساتھ پشاور صدر جانے کا اتفاق ہوا، میری دوست شاپنگ کرتی رہی اور میں اپنی عادت کے مطابق ایک ایک چہرہ تکنے لگی۔ اچانک پیچھے سے دو بچوں کی آوازیں سنائی دیں، پیچھے مڑ کر دیکھا تو کہنے لگے کہ اپنا وزن چیک کریں، وہ بھی صرف اور صرف دس روپے میں، میری نظر ان کے ہاتھ میں پکڑی ویٹ مشین پر گئی۔ پہلے تو میں نے منع کیا کیونکہ یہی کوئی سال بھر پہلے وزن چیک کیا تھا، اس وقت میں جتنا کھاتی تھی اب بھی اتنا ہی کھاتی ہوں تو سوچا کہ میرا وہی پینتالیس وزن ہو گا۔
پھر ان بچوں کے چہروں پر مجھے آس دکھائی دی کہ اب میں وزن چیک کر کے انہیں پیسے دے دوں گی، میں نے کہا چلو وزن چیک کر لیتی ہوں لیکن جب میں وزن چیک کرنے کے آلہ پر کھڑی ہو گئی تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیوں کہ میرا وزن پینتالیس سے باون تک بڑھ گیا تھا۔ میرے اندر ہی اندر ایک خوشی سرایت کر گئی کہ چلو تھوڑی سی تو صحت مند ہو گئی ہوں۔ پھر جب میں وہاں سے نکلی تو میری دوست نے کہا کہ سامنے ایک کینٹین ہے وہاں جا کر کچھ کھا لیتے ہیں پھر گھر چلتے ہیں۔ جب ہم وہاں پر بیٹھے تو ایک چھوٹا سا بچہ مینیو کارڈ لے کر آیا، ہم نے وہاں کھانا کھایا اور اس بچے سے بل منگوا کر بھر دیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ دو تین بچے کام کر رہے تھے۔ پھر جب ہم وہاں سے نکلے، گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میرا ذہن اب بھی ان بچوں ہی میں اٹکا ہوا تھا۔
وہ بچے گھروں سے اس لیے نکلے ہوئے تھے کہ وہ کام کر کے پیسے کمائیں۔ میں ان بچوں کے بارے میں سوچ سوچ کر حیران ہو رہی تھی کہ وہ کتنے مضبوط ارادے کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ یہاں تو ہمارے بہت سے نوجوان ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ یہاں تو کام کاج ہی نہیں ہے۔ کوئی کہتا ہے پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے؟ میرے کچھ جاننے والے اکثر مجھ سے کہتے ہیں ہمیں کوئی کام ہی نہیں مل رہا، ارے کام خود آپ کو ڈھونڈتا ہوا تو نہیں آئے گا ناں، آپ خود ڈھونڈنے نکلیں گے۔
میں اگر ایک لڑکی ہو کر گھر سے نکلی، مختلف جگہوں میں انٹرویوز دیئے، میں نے لکھنا شروع کیا، ایڈیٹنگ سیکھ لی، فوٹوگرافی، وڈیو گرافی سیکھ لی، آرٹ سیکھ لیا، بہت سے سکلز سیکھ لیے اور پھر جہاں جہاں کام ملتا رہا میں وہاں گئی میں نے کام کیا۔
اب ایسا تو میں نے کبھی نہیں کیا کہ آج گرمی ہے میں نہیں جا سکتی، آج بارش ہے آج میری طبیعت خراب ہے۔ ہر قسم کے حالات سے لڑ کر میں کسی مقام تک پہنچ ہی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل کا سامنا کیا، گھر والوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لوگوں کی سو باتیں سنیں۔ تو اگر میں ایک لڑکی ہو کر اپنے لیے کام ڈھونڈ سکتی ہوں تو کچھ لڑکے کیوں کہتے ہیں کہ انہیں کام نہیں مل رہا۔ آپ جب بھی کسی بھی وقت گھر سے نکلتے ہیں جہاں بھی جاتے ہیں کوئی آپ کو نہیں پوچھتا۔ ہم لڑکیاں تو مخصوص وقت میں گھر سے نکلتی ہیں، وقت پر واپس گھر پہنچنا ہوتا ہے۔
ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو کام کرتا دیکھ کر میرا کلیجہ پھٹ رہا تھا کہ اتنی گرمی میں دس دس روپے کے لیے وہ ایک ایک کی منتیں کر رہے ہیں، ساتھ میں مجھے یہ بھی یاد آیا کہ وہ میرا وزن نہیں بڑھا تھا وہ تو میرے ہاتھ میں بیگ تھا جو میک اپ کے سامان سے بھرا ہوا تھا، اس وجہ سے وزن چیک کرنے والی مشین میرا وزن زیادہ بتا رہی تھی۔
میں نے راستے میں بہت سے ایسے بوڑھے بھی دیکھے جو چھوٹا سا پتیلہ سامنے رکھ کر چاول بیچ رہے تھے اور وہ بھی چھتری کے سائے میں بیٹھ کر، فوارہ چوک میں کچھ ایسے بوڑھے بھی بیٹھے ہوئے تھے جو سامنے بیلچے وغیرہ رکھ کر مزدوری کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔
یہاں مجھے ایک اور بات یاد آئی کہ مردان میڈیکل کمپلیکس کے سامنے ایک خاتوں سخت گرمی میں چھتری لے کر ماسک بیچتی ہے۔
تو میں کہتی ہوں کہ اگر بچے دس روپے کمانے کے لیے کام کر سکتے ہیں، عورتیں نکل سکتی ہیں، بوڑھے نکل سکتے ہیں تو ہمارے کچھ لاڈلے نوجوان کیوں یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے، یہاں کسی کو کام نہیں ملتا۔
میں کہتی ہوں آپ باہر نکلیں اور غور سے دیکھ لیں آپ کو اتنے کام مل جائیں گے کہ آپ خود بھی فیصلہ نہیں کر پائیں گے کہ کون سا کام کروں۔ اگر اس بات پر کوئی بے روزگار غور کرے تو شائد وہ یہ کہنے میں شرم محسوس کرے کہ پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے؟