خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

بعض خواتین کیوں کرونا ویکسین لگوانے سے انکاری ہیں؟

 

خالدہ نیاز

اس وقت پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے لیکن باقی ممالک کی نسبت یہاں ویکسین لگانے کی شرح کم ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر ( این سی او سی) ویب سائٹ کے مطابق ویکسین لگانے کا عمل فروری کے مہینے سے شروع ہے اور جون 26 تک پورے ملک میں 14165288 افراد نے کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی ہیں جو پورے ملک کی آبادی کا 7 فیصد سے بھی کم شرح بنتی ہے۔

خواتین جھوٹی افواہوں پر جلد یقین کرلیتی ہیں؟

کرونا ویکسین لگانے کی شرح میں کمی کے وجوہات مختلف ہیں جس میں اس حوالے سے عوام میں شعور کی کمی، طریقہ کار کے بارے میں لاعلمی، ویکسین کی کمی اور ویکسین کے حوالے سے مختلف جھوٹی افواہیں شامل ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکی سب سے بڑی وجہ جھوٹی افواہیں ہیں جس کی شکار زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں کیونکہ انکے پاس اکثر معلومات کی کمی ہوتی ہے اور بہت جلد جھوٹی افواہوں پہ یقین کرلیتی ہیں۔

ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی صائمہ کا شمار بھی انہیں خواتین میں ہوتا ہے جس نے ویکسین سے جڑی جھوٹی افواہوں پر یقین کرلیا تھا کہ کرونا ویکسین لگانے سے لوگ دو سال بعد مرجاتے ہیں یا اس سے خواتین بانجھ ہوجاتی ہیں اور انکے چہرے پر بال نکل آتے ہیں لیکن انہوں نے ڈاکٹرز اور باقی ایسے لوگوں سے معلومات حاصل کیں جو ویکسین لگوا چکے ہیں۔ صائمہ کا کہنا ہے کہ معلومات حاصل کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ ویکسین محفوظ ہے اور وقت کی ضرورت ہے جس کے بعد انہوں نے خود ویکسین لگوائی اور خود کو محفوظ کرلیا۔

ویکسین کا کوئی سائیڈ ایفیکیٹ نہیں ہے

صائمہ کہتی ہے کہ ویکسین کا کوئی سائیڈ ایفیکیٹ نہیں ہے اور لوگوں کو چاہیئے کہ وہ ویکسین لگوائے تاکہ کورونا سے محفوظ رہ سکیں۔

‘میں خود بھی ویکسین لگوانے سے ڈر رہی تھی کیونکہ مجھے لوگوں نے کہا تھا کہ یہ ویکسین غیر محفوظ ہے اور اس کے لگانے کے بعد فالج کا ٹیک ہوسکتا ہے اور باقی بیماریاں بھی لاحق ہوسکتی ہے لیکن پھر میں نے ڈاکٹرز سے بات کی جنہوں نے مجھے بتایا کہ یہ بالکل محفوظ ہے کیونکہ وہ خود بھی لگوا چکے ہیں’

صائمہ کہتی ہیں کہ ویکسین لگوانے کے بعد اچھا محسوس کرتی ہیں کیونکہ اس نے خود کو محفوظ کردیا ہے۔ اس نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ویکسین لگوائے اور خود کو محفوظ بنائے۔

پاکستان میں چین کی سائنو فارم، سائنوویک اور کین سائنو جبکہ برطانیہ کی آکسفورڈ آسٹرا زینیکا اور روس کی سپوتنک فائیو ویکسین شہریوں کو لگائی جا رہی ہے۔ امریکہ کی فائزر ویکسین کی ایک کھیپ بھی پاکستان پہنچ چکی ہے۔ ملک میں سب سے پہلے فرنٹ لائنرز یعنی داکٹرز اور باقی عملے کو ویکسین دی گئی، اس کے بعد 60 سال یا اس سے بڑی عمر کے افراد کو ویکسین کا عمل شروع ہوا، مئی میں 30 سال سے زائد عمر کے افراد کی ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا تھا جبکہ 18 سال سے زائد عمر کے رجسٹرڈ افراد کی ویکسینیشن بھی تین جون سے شروع کی جاچکی ہے۔

ویکسین کے ذریعے ایک وائرس کو جسم میں منتقل کیا جاتا ہے

ملک شہزاد حمزہ جو ایک نجی ٹی وی کے ساتھ میزبان کے حیث پہ کام کرتے ہے کا کہنا ہے کہ ویکسین کے بارے میں غلط خبروں کی وجہ سے لوگ ویکسین لگوانے سے کتراتے ہیں لیکن ان خبروں اور جھوٹی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کرونا ویکسین کو مذہب سے بھی جوڑ رہے ہیں کہ اس کے ذریعے ایک وائرس کو جسم میں منتقل کیا جاتا ہے اور جو یہ کرواتے ہیں ان سے غیرت ختم ہوجاتی ہے اور وہ اسلامی تعلیمات کو بھی بھول جائیں گے لیکن یہ سب غلط خبریں ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک شہزاد حمزہ کا کہنا ہے اس سلسلے میں متعلقہ حکام اور حکومت کے ساتھ ماہرین اور صحافیوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ ریڈیوز، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ کرونا ویکسین لگوائے۔

‘ آجکل ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے جس میں غلط خبریں بنانا اور پھیلانا بہت آسان ہوگیا ہے کیونکہ وٹس ایپ گروپس میں کوئی خبر شیئر کردیتا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے کئی لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اس کا تدارک ممکن ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اور دیکھے کسی بھی نیوز یا پوسٹ کو آگے فارورڈ نہیں کرنا چاہیئے’ ملک شہزاد حمزہ نے بتایا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق 26 فروری 2020 کو ہوئی تھی، جس کے بعد سے وبا کے پھیلاؤ میں اتار چڑھاؤ جاری ہے اور اب تک وائرس کی 3 لہریں دیکھی جاچکی ہیں۔ ملک میں کورونا وائرس سے اب تک مجموعی طور پر 22188 افراد جان کی باز ہارچکے ہیں اور کل کیسز کی تعداد 9 لاکھ 53 ہزار 842 ہوچکی ہے جب کہ اب تک وائرس سے 8 لاکھ 98  ہزار 944 افراد صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔

اگر ویکسین کے نقصانات ہوتے تو ڈاکٹر کبھی لگاتے

اگر چہ بعض لوگ آگاہی نہ ہونے اور باقی وجوہات کی وجہ سے غلط خبریں اور افواہیں پھیلاتے ہیں تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس حوالے سے عوام کو آگاہی دے رہے ہیں کہ یہ ویکسین بالکل محفوظ ہے اور وقت کی ضرورت ہے۔ مردان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شبانہ کامران بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس کارخیر میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ روزانہ کی بنیاد پر 40 تک مریضوں کا معائنہ کرتی ہیں اور چیک اپ کے دوران یہ انکو ویکسین کے حوالے سے ضرور بتاتی ہیں کہ یہ وہ یہ ویکسین لگوائے کیونکہ یہ محفوظ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر غلط خبروں کی وجہ سے ویکسین لگوانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انکو لگتا ہے کہ اس کے نقصانات ہے تو میں انکو کہتی ہوں کہ اگر اس کے نقصانات ہوتے تو ڈاکٹرز ویکسین نہ لگواتے لیکن ڈاکٹرز تو سارے کرواچکے ہیں تو انکی بات سننے کے بعد 40 فیصد لوگ ویکسین لگوانے پر راضی ہوجاتے ہیں۔

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button