کیا اسلام میں بچوں کی پیدائش میں وقفہ جائز ہے؟
انیلا نایاب
‘شادی کے پہلے مہینے ہی میں حاملہ ہوئی پہلا حمل بلکل صحیح رہا اور ڈیلیوری بھی نارمل ہوئی، پہلے بچے کی پیدائش کے پورے چھ ماہ بعد دوبارہ حاملہ ہوئی ڈیلیوری تو نارمل ہوئی لیکن دونوں بچوں کے درمیان وقفہ نہ کرنے کی وجہ سے مجھے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا’
یہ کہنا ہے پشاور کی رہنے والی شازیہ کا۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوں میں وقفہ نہ کرنے سے انکو کئی بیماریاں لاحق ہوگئی جیسے کہ خون کی کمی،کم بلڈ پریشر۔ان پیچیدگیوں کے باوجود انہوں نے وقفہ نہیں کیا اور کچھ مہینوں بعد پھر سے تیسری بار اُمید سے ہوئی جس کی وجہ سے ایک بر پھر خون کی کمی،ٹانگوں اور کمر میں شدید درد ہوتا تھا اور ساری رات تکلیف کی وجہ سے جاگنا پڑتا تھا خون کی کمی اتنی زیادہ ہوگئی کہ جسم سوجنے لگا اور اندرونی طور پر انفیکشن بھی ہوا اور نارمل ڈیلیوری کی بجائے آپریشن(سی سیکشن) سے بچے کی پیدائش ہوئی۔
شازیہ کا کہنا ہے کہ تیسرے بچے کے پورے دو سال بعد پھر سے اُمید سے ہوئی اس کے بعد کمر اور ٹانگوں کا درد مستقل رہنے لگا اس بار خون کی کمی کچھ زیادہ تھی اور کافی مشکل سے انکی اور بچے کی جان بچ گئی اور اس بار بھی بچہ (سی سیکشن)سے ہوا اس کے بعد سے کمر میں مسلسل درد رہنے لگا اور اب وہ بھاری چیز بھی نہیں اٹھا سکتی۔ شازیہ کہتی ہیں کہ اس کی شادی کو چند سال ہوئے ہیں اور اس کے چار بچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انکی شادی کم عمری میں ہوئی تھی اور انکو اس بات کی سمجھ نہیں تھی کہ بچوں میں وقفہ کس قدر ضروری ہے۔
دوسری جانب روبینہ کا کہنا ہے کہ پہلے حمل میں اور اس کے بعد ہونے والے حمل میں کافی فرق ہوتا ہے۔ پہلے حمل کے مقابلے میں بعد میں ہونے والے حمل میں عورتوں میں کافی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہے۔ پہلے بچے چھوٹے ہوتے ہیں ماں سارا دن بچوں کا خیال رکھتی ہے اور اپنے کھانے پینے اور آرام کا صحیح طور پر خیال نہیں رکھ سکتی اس کی وجہ سے کمزوری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اندر سے ختم ہو گئی ہے کیلشیم کی کمی،کم بلڈ پریشر اور کمزوری کی وجہ سے مسلسل چکر آتے ہیں۔
ماں کا صحت مند ہونا اتنا ضروری ہے جتنا نئے بچے کا اس دنیا میں آنا۔اگر بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہو تو ماں اور بچے دونوں کے صحت کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔
اس حوالے سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سہیلا کا کہنا ہے کہ ایک حمل ہونے کے بعد کم سے کم دو سے تین سال کا وقفہ ہونا چاہیے تاکہ ماں اور بچہ دونوں صحت مند ہو کیونکہ ماں بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے اندرونی طور پر کمزور ہوجاتی ہے ہڈیوں کی کمزوری ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اگر وہ دوسری حمل جلدی لائے تو اس میں اور بچہ دونوں میں کمزوری ہوتی ہیں حمل میں کافی مشکلات پیدا ہو سکتے ہیں۔
اسلام میں ایک خاتون کو بچے کی پیدائش میں وقفہ کرنے کی کتنی گنجائش ہے اس حوالےسے مفتی ضیاءاللہ کا کہنا ہےکہ اسلام میں وقفے کی اجازت ہے لیکن نس بندی کی اجازت نہیں ہے۔ نس بندی کی اجازت اس حالت میں ہے کہ جب عورت کی جان کو خطرہ ہو اور کوئی مستند ڈاکٹر مشورہ دیں۔ بچوں میں وقفہ باہم میاں بیوی کی رضامندی اور مشورے سے جائز ہے چونکہ وقفہ ماں اور بچوں کی اچھی صحت کی غرض سے کیا جاتا ہے اس لیے اسلام میں بچوں میں وقفہ کرنا جائز ہے۔
اکثر خواتین وقفہ نہیں کرتی اور حمل ٹھہرنے کے بعد حمل گراتی ہے اس حوالے سے مفتی ضیاء اللہ کہتے ہے کہ اسلام میں حمل گرانے کو سختی سے منع کیا گیا ہے حمل کے چار ماہ بعد رحم مادر میں بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے اس وقت حمل گرانا رحم مادر میں بچہ قتل کرنا ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے۔