عالم دین ویڈیو سکینڈل: عذر گناہ بدتر از گناہ!
مولانا خانزیب
لاہور کے ایک مدرسے میں ایک مفتی صاحب کے حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیو نے بہت سے سنجیدہ لوگوں کو دل سے دکھی کر دیا ہے۔ اعترافی بیان کے بعد اس کے اس عمل کے دفاع کیلئے کسی قسم کا کوئی جواز نہیں ہے بلکہ حق الیقین اور اعتراف جرم کے بعد عذر گناہ از بدتر گناہ کے درجے میں ہوتا ہے۔
سنن ابی داؤد میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چوری کی ان لوگوں نے کہا: اس سلسلے میں ہم آپ سے بات نہیں کر سکتے، آپ سے صرف آپ کے محبوب اسامہ ہی بات کر سکتے۔ چنانچہ انہوں نے آپؐ سے اس سلسلے میں عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا: اسامہ! ٹھہرو! بنی اسرائیل انہی جیسی چیزوں سے ہلاک ہوئے، جب ان میں کوئی اونچے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر ان میں کوئی نچلے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔ اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔
اس واقع کے بعد مدارس میں اصلاح کے حوالے سے انتہائی سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اس واقعہ کے حوالے سے لوگوں کی آرا بھی دو طرح تقسیم ہوئی ہیں۔ ہمارے سماجی المیوں میں ایک بڑا المیہ کسی عمل اور نظریہ کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار ہونا ہوتا ہے جبکہ حق اور حقیقت اعتدال میں ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں میں اندھی تقلید کے پجاری ہوتے ہیں، ان کو کسی کی اچھائی برائی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا نہ ہی وہ کسی کی عزت و بے عزتی سے کوئی سروکار رکھتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اس طرح کے انسانیت سوز عمل کے منظر عام آنے پر اس کے اسباب و محرکات کا تجزیہ کرتے، اس عمل سے سوسائٹی کو مستقبل میں بچانے اور اس ایک وقوعہ کی روشنی میں دیگر اندھیروں کو اجالوں میں بدلتے، کسی کی شخصیت سے ہٹ کر اس عمل کی قباحت کو اجاگر کرتے کچھ لوگ بغض معاویہ اور کچھ حب علی میں گمراہ ہو کر اوندھے منہ گر پڑتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
جس طرح کسی شخص کے ایک انفرادی غلط عمل کو کسی سوسائٹی یا نظریے کے ساتھ جوڑنا غلط ہے اسی طرح کسی کے انفرادی عمل کو بھی ہر حال میں حق و سچ یا درست ثابت کرنا یا اس کے کسی گناہ کو جواز و تاویل فراہم کرنا اس سے زیادہ غلط ہے۔ گناہ، جرم، غلط ہر جگہ غلط جبکہ حق اور درست عمل ہر وقت ہر جگہ درست ہوتا ہے۔
پاکستان میں سنہ 1947 میں مدارس کی تعداد 247 تھی جو سنہ 1980 میں 2061 اور اب 30 ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔ اگر عمومی بات کریں اور اس واقعے کے بعد اب لازم ہے کہ مدارس کی اصلاحات کو اب لازم مانیں۔ پاکستان میں سنہ 2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں وزارت داخلہ نے مدارس کی تمام تنظیموں سے مذاکرات شروع کئے تھے مگر پھر وہ سب روایتی بدانتظامی اور ریاست کی مخصوص پالیسیوں کی نذر ہو گیا اور یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھایا گیا۔ اسی طرح دیگر ملکی عصری علوم کے اداروں میں بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، اس سے انکار یا ان کیلئے تاویل کرنا اتنا ہی غلط ہو گا جتنا اس مفتی کے دفاع کیلئے تاویلیں پیش کرنا۔ مدارس کا تعلق چونکہ دینی علوم سے ہے، دیندار طبقے کی پارسائی و پاکبازی کے لوگ زیادہ قائل ہوتے ہیں۔ ہمارے پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ پشتون اپنا آپ جہنمی چاہتا ہے مگر مولوی صاحب کو ہر حال میں جنتی چاہتا ہے یعنی یہ اعتماد کسی طبقے پر معاشرے کے حسن ظن کی دلیل ہوتی ہے اس لئے اس حسن ظن کو ہر حال میں قائم رکھنے کیلئے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔
اہل مدارس کو یورپ کے قرون وسطی کے حوالے سے کلیساؤں کے جبر و استبداد کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے، تقدس اور احترام وہ ہوتا ہے جو انسان آپ کو خود دیں مگر اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو چھپانے کیلئے اپنے اردگرد مصنوعی تقدس کا ہالہ بننا انتہائی گھٹیا کام ہوتا ہے۔ اصلاحی اور تعمیری تنقید کو کفر گرداننا، ہر اصلاحی بات کو علماء اور دین اسلام کے بغض کا نام دینا اور اختلاف رائے کو کفر گرداننا کوئی دانشمندی کی بات نہیں، اپنے احترام کیلئے موضوعی روایات اور غیرمستند نصوص کا سہارا کلیسا کی طرح تباہ کن ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں کسی کو انڈر پریشر رکھ کر ان کو سوالات اٹھانے سے منع کروں گا یا ان کے سوالات کو کفر، بغض اور دین کے ساتھ بغض کا نام دے کر گلو خلاصی کر لوں گا تو یہ بہت بڑی تباہ کن بھول ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی سوال کا درست جواب ہی حل ہے نہ کہ ہزار سال پہلے پاپائیت کے رویے اور طرزِ استدلال۔
انسان طبعاً خواہش پرست ہے مگر دوسری طرف انسان کوئی درندہ اور جانور بھی نہیں ہے کہ وہ جس طرح چاہے ان خواہشات کی تکمیل بلا روک ٹوک کرے۔ سوسائٹی، روایات اور مذھب کو پس پشت ڈالے۔ انسان چونکہ سماجی حیوان ہے، اس کی سماجی زندگی اور سماجی شعور ہزاروں سال کا ارتقائی سفر کر کے انسانی معراج کی اس چوٹی تک پہنچے ہیں، اس معراج پر ہی خدا نے اسے مسجود ملائک بنایا تھا۔
اس تمہید کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات و تمناؤں کی تکمیل میں سماجیات، مذہبیات اور فطری قوانین کے تابع ہو گا، ان قوانین کی شکل میں اس کی بہیمیت کے آگے لگام رہے گا، اگر کوئی کسی ایک سماجی رکاوٹ اور روایت کو غیرمنطقی انداز میں ہٹانے اور پھلانگنے کی بے جا اور بے وقت کوشش کرے گا تو وہ روایت تو اچانک نہیں ٹوٹے گی مگر پورے معاشرے میں ایک الجھن اور اضطراب کا باعث بنے گا جس کا نتیجہ کسی بھی طور خیر کی صورت میں نہیں نکلتا۔ بلکہ مزید سماجی الجھنوں کو وہ تخلیق کریگا ۔مدرسہ اگر اس معنی میں لیا جائے جس کی اپنی مستقل عمارت ہو، اساتذہ اور طلبہ ہوں اور ایک خاص تعلیمی نظام اور منصوبہ بندی کے تحت علوم و فنون کی تدریس ہوتی ہو جس طرح کا تصور آج کل مروج ہے تو اس طرح کے مدرسہ کا وجود اسلام کے ابتدائی ادوار میں نہیں تھا اور مسجد ہی تمام مذہبی، علمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز اور محور تھی جس کی ابتدائی شکل اصحابِ صفہ کی شکل میں مسجد نبوی کے ساتھ تھی۔ صفہ کے معنی ہیں چبوترا (تھڑا)۔ مسجد نبوی سے متصل پیچھے کی جانب تھوڑا سا چبوترا بنا دیا گیا تھا جہاں مہمان اترتے تھے اور علم سیکھنے والے فقراء صحابہ وہاں مستقل طور پر رہتے تھے۔
یہ حضرات اصحاب صفہ کہلاتے۔ یہ حضرات کم و بیش ہوتے رہتے تھے کبھی 70 اور کبھی 200 سے زیادہ، گویا یہ مدرسہ نبوی تھا، ان حضرات میں مشہور صحابہ کرام یہ ہیں: ابو ذر غفاری، عمار ابن یاسر، سلمان فارسی، صہیب، بلال، ابوہریرہ، عقبہ ابن عامر، خباب ابن ارت، حذیفہ ابن یمان، ابو سعیدخدری، بشر ابن خصاصہ، ابو موہبہ وغیرہ رضی اللہ عنہم اجمعین، انہی حضرات کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی”وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ حصول علم کے طور طریقے بدلنے لگے۔ علم کے حلقے بڑھ گئے، درس و تدریس اور تکرار کا شور پیدا ہوا اور بحث و مناظروں کی صدائے بازگشت گونجنے لگی، چنانچہ ان چیزوں نے مساجد سے مدارس کو الگ کر دیا، کیونکہ مساجد میں ادا کی جانے والی عبادات کے لئے سکون و اطمینان کی فضا ضروری تھی۔
مذکورہ بالا تعریف کے مطابق مدرسہ کا وجود اسلام میں سب سے پہلے اہل نیشاپور، ایران، کے ہاں عمل میں آیا جہاں نیشاپور کے علماء نے ”مدرسہ بیہقیہ“ کی بنیاد رکھی تھی۔ نیشاپور میں اس کے علاوہ ایک مدرسہ سلطان محمود عزنوی نے، ایک اس کے بھائی نصر بن سبکتگین نے مدرسہ سعیدیہ کے نام سے قائم کیا تھا اور چوتھا مدرسہ امام ابن فورک (متوفی 406ھ) کا وجود میں آیا تھا۔
یہ پانچویں صدی ہجری گیارہویں صدی عیسوی کی ابتدا تھی۔ اس زمانے میں ایک طرف کتب خانے منظم شکل میں سامنے آنا شروع ہو گئے تھے تو دوسری طرف مدارس تنظیمی و تعلیمی ڈھانچے سمیت وجود میں آ گئے تھے گویا مدارس کا ایک جال پھیل گیا تھا۔
اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فطرت کے تقاضوں کے مطابق انسان کی طبعی خواہشات اور جنسی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نکاح اور سسرال کی شکل میں تعلق کی سورہ النساء میں تفصیل کے ساتھ ایک لمبی فہرست بیان کی ہے جبکہ سورہ شعراء اور دیگر سورتوں میں ہم جنس پرستی کو تاقیامت ممنوع قرار دیا ہے۔ اس طرح کے واقعات کی آڑ میں ہم جنس پرستی اور غیرفطری تعلق کے جواز کیلئے راہ نکالنا پوری انسانی سوسائٹی کو ایک گزرے ہوئے امتحان میں دوبارہ ڈالنا ہے جبکہ اس طرح کے تعلق کے جواز سے مستقبل میں پوری نسل انسانی کا وجود و و بقاء ایک مستقل خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
مغرب سمیت جہاں بھی اس طرح کے جوازات دیئے جاتے ہیں درحقیقت وہ اجتماع انسانی کے کچھ افراد کیلئے غیرفطری جنسی تسکین کا جواز تو مہیا کریں گے مگر پوری سوسائٹی اور نسل انسانی کو اس راہ پر ڈالنے کا ارادہ و سعی ایک لاحاصل حرکت ہو گی۔ اسلام سمیت اکثر مذاہب میں یہ عمل ناجائز اور سخت حرام ہے اور اس کا مرتکب سخت سزا کا مستوجب ہے۔ (جاری ہے)