‘گھر میں کوئی کمانے والا نہیں، بھیک مانگنا ہماری مجبوری ہے’
سدرا ايان/ حناء گل
"میرے دیور کی فوتگی کا تیسرا دن تھا اور میں دانت کا علاج کرنے کے لئے ہسپتال جارہی تھی کہ راستے میں ایک خاتون میرے ساتھ بیٹھ گئی اور باتوں باتوں میں اس نے میرے پرس سے بٹوا نکال لیا جس میں میرا قومی شناخی کارڈ، موبائل سم کارڈ اور پیسے تھے ، جب میں ہسپتال پہنچی تو میرے پاس ایک روپیہ بھی نہیں تھا اور وہ خاتون راستے میں اتر گئی تب میری پڑوسن نے میرا کرایہ اور علاج کا خرچہ کیا”
یہ کہنا ہے مردان سے تعلق رکھنے والی ریحانہ شکیل کا جن کے بقول کسی انجان خاتون نے راستے میں انہیں باتوں میں لگایا اور جب اسے سمجھ آیا تو خاتون ان کے پرس سے بٹوا نکال چکی تھی اور وہ عین موقع پر خالی ہاتھ رہ گئی۔
ریحانہ کے مطابق صوبہ بھر کی طرح مردان میں بھی جگہ جگہ بھیک مانگنے والوں کی شکل میں ایسی خواتین پھرتی ہیں جو بھیک کی آڑ میں لوگوں سے چوریاں کرتی ہیں ۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ریحانہ نے بتایا کہ ہسپتال سے گھر جانے کے بعد انہوں نے ایف آئی آر درج کی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اس کے شناختی کارڈ اور موبائل سم کا غلط استعمال نہ کریں اور وہ کسی نئے مصبیت میں پھنس نہ جائے ۔
دوسری جانب پولیس کا بھی کہنا ہے کہ مردان میں بھیک مانگنے والوں کی شکل میں بہت سے چور لوگ پائے جاتے ہیں اور ان کے پاس ابھی تک ایسے بہت سے کیسز درج ہوئے ہیں جن میں بھیک مانگنے والوں نے مختلف طریقوں سے چوریاں کی ہے۔
اس حوالے ایک پولیس اہلکار نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ خواتین مختلف طریقوں سے چوریاں کرتی ہے جس میں پرس چوری کرنا، کسی کو نشہ دینا اور دکان سے سامان وغیرہ چوری کرنا شامل ہے۔
” یہ لوگ ہر جگہ چوریاں کرتے ہیں لیکن ہمیں تب پتہ چلتا ہے جب کوئی پولیس سٹیشن آکر رپورٹ درج کرتے ہیں، ہمارے ہاں 20 سے 25 فیصد تک ایسے لوگ آتے ہیں جس کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہو، وہ بھی روز نہیں ہفتہ یا دو ہفتے بعد کوئی کیس آتا ہے”
ان کے مطابق چوری کے زیادہ تر واردات عید کے دنوں میں رپورٹ ہوتے ہیں جس میں ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے جاکر چوریاں کرتے ہیں تاہم پولیس نے اس معاملے میں صحیح طرح سے کام شروع کیا ہے ،ہمارا پنا ٹیم گشت کرتا ہے اور ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہیں۔
‘بھیک مانگنا ہماری مجبوری ہے’
اٹھارہ سال کی عمر میں میری شادی ایک غریب گھرانے میں ہوئی جہاں اللہ نے مجھے چھ بیٹیوں سے نوازہ لیکن جب میرے شوہر بیماری کی وجہ سے فوت ہوئے تب ہمارا کوئی کمانے والا نہیں تھا اور میں نے مجبوری کے تحت گھروں میں کام کرنے ساتھ بھیک مانگنا شروع کیا ”
مردان سے تعلق رکھنے والی یاسمین کے مطابق وہ مجبوری کے تحت گھروں میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ گلیوں اور بازاروں میں بھیک مانگنی ہے کیونکہ مہنگائی کے اس دور میں گھر کے ضروریات کو پورا کرنا مشکل کام بن چکا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ کبھی کبھی خود پر ترس آتا ہے اور اپنی قسمت پر روتی ہوں کیونکہ میری بیٹیاں اب جوان ہیں اور میں چاہتی ہوں کہ عزت سے ان شادی ہوجائے ، میری چار بیٹوں کی شادی ہوئی ہیں اور دو بیٹیاں میرے ساتھ رہ گئی ہیں ۔
ان کے بقول ہمارے گھر کے حالات بہت خراب ہے اور رب تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ کسی کو اس طرح مجبور نہ کرے کہ وہ دوسروں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائے کیونکہ بھیکاریوں کو کوئی بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔