خیبرٹیچنگ ہسپتال کی خاتون ڈاکٹر کا ایم ڈی پر ہراسانی کا الزام
خالدہ نیاز
خیبرٹیچنگ ہسپتال پشاور کی ایک خاتون ڈاکٹر نے الزام لگایا ہے کہ ہسپتال کے ایم ڈی نے انکے پیشہ ورانہ ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ انکو نوکری سے نکالنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ ہسپتال انتظامیہ نے ڈاکٹر کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ ڈاکٹر ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ واپسی کے آرڈر کو واپس کرنے کے لیے انتظامیہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران کے ٹی ایچ آئی سی یو کی ٹرینی رجسٹرار ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ یہ 29 مئی کی بات ہے جب ڈیوٹی کے دوران انکو ایم ڈی ڈاکٹر روح المقیم کی جانب سے کہا گیا کہ پرائیویٹ روم میں ایک مریض کو وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے جس کے بعد انہوں نے مریض کو وینٹی لیٹر مہیا کرنے کی لیے تگ و دو شروع کی لیکن اس وقت انکو کوئی بھی وینٹی لیٹر نہ ملا کیونکہ سارے وینٹی لیٹرز کورونا مریضوں کو لگے ہوئے تھے اور جو تھے انکو ڈس انفیکٹ کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ کورونا مریض کو لگنے والا وینٹی لیٹر عام مریض کو ڈس انفیکٹ کیے بغیر نہیں لگایا جاسکتا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ اس وقت انہوں نے اس تمام صورتحال سے ایم ڈی کو آگاہ کیا لیکن انہوں نے بات کو سمجھنے کی بجائے ان پر غصہ کیا اور انکو کہا کہ ہم آپکو لاکھوں کی تنخواہ دیتے ہیں اور آپ وینٹی تک مہیا نہیں کرسکتی اور یہ کہ آپ حکومت کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ ہمارے ہسپتال میں وینٹی لیٹرز نہیں ہے۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق اس کے بعد ایم ڈی نے ان سے کہا کہ انکا کنسلٹنٹ کہاں ہے انکو جلد بلائے جس کے بعد انہوں نے کنسلٹنٹ کو بلایا۔ ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ ایم ڈی جس مریض کو وینٹی لیٹر لگانے کا کہہ رہے تھے انہوں نے وینٹی لیٹر لگانے سے انکار کیا اور وہ سٹیج فور کا کینسر کا مریض ہے اور پرائیویٹ روم میں اس کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا اور انہوں نے اس بات کی شکایت کی تھی ایم ڈی سے جبکہ ایم ڈی انکو وینٹی لیٹر لگوانا چاہ رہے تھے حالانکہ کینسر کے سٹیج فور کے مریضوں کو ہم وینٹی لیٹر پہ نہیں رکھتے۔
ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ ایم ڈی نے انکو نہ صرف انکو باتیں سنائی بلکہ انکو دھمکی بھی دی کہ انکو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایم ڈی نے انکو یہاں تک بول دیا کہ ہم آپکو تنخواہیں دیتے ہیں حالانکہ انکو تنخواہ حکومت کی جانب سے ملتی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ کے مطابق اس واقعے کے بعد انہوں نے ڈسپلن کمیٹی اور ڈین کے نام ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ذکر کیا لیکن افسوس کمیٹی نے اس حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں کی اور الٹا انکو ایک لیٹر تھما دیا گیا کہ کے ٹی ایچ کو انکی خدمات کی ضرورت ہے اور وہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ جائے وہاں انکا تبادلہ ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے اس وقت وہ گھر پہ ہی موجود ہے کیونکہ انہوں نے فی الحال محکمہ صحت میں جوائننگ نہیں دی۔ ڈاکٹر عائشہ نے واضح کیا ہے کہ ایسوسی ایٹ ہسپتال ڈائریکٹر ڈاکٹر سعود کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے اس کے خلاف کوئی ایف آر آئی کی ہے نہ درخواست دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائے کیونکہ اس واقعے سے انکی پیشہ ورانہ ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
دوسری جانب خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کے ترجمان سجاد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عائشہ کے ساتھ ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ہراسگی نہیں ہوئی ہے اور نہ اس کی گنجائش ہے۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال انتظامیہ ملازمین اور مریضوں کے حقوق کی بلاتفریق تحفظ پر یقین رکھتی ہے۔ اپنی نااہلی کو چھپانے اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ واپسی کے آرڈر کو ہراسگی سمجھنا محض ایک ڈرامہ ہے۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال انتظامیہ نے انسٹیٹیوٹشنل ملازمین کی تقرری کے بعد دیگر کئی سول سرونٹ ملازمین کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ بھجوا دیا ہے جوکہ ایم ٹی آئی کے بالکل عین مطابق ہے جس سول سرونٹ کی ضرورت باقی نہیں رہتی اسے واپس ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ بھیجا جاتا ہے اور یہ سب ایک معمول ہے۔
ہسپتال کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ہفتہ بتاریخ 30 اپریل کو میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر روح المقیم کے دفتر میں مریض کا رشتہ دار شکایت لیکر آیا کہ ان کا مریض اکرام اللہ ارباب تشویشناک حالت میں پرائیویٹ روم نمبر 44 میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فہد نعیم کے زیرعلاج داخل ہے جنہیں اب آئی سی یو میں شفٹ کرنے کی ضرورت ہے لیکر آئی سی یو کے ڈاکٹر اس مریض کو قبول نہیں کر رہے۔
میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر روح المقیم مریض کے رشتہ دار (جو کہ خود بھی اہم عہدے پر تعینات سرکاری ملازم ہے) کے ساتھ میڈیکل آئی سی یو چلے گئے۔ میڈیکل ڈائریکٹر نے آئی سی یو سٹاف سے انچارج انٹینسیوسٹ ڈاکٹر لقمان کے متعلق دریافت کیا۔ پتہ چلا کہ ڈاکٹر لقمان آج چھٹی پر ہے اور ڈاکٹر عائشہ جوکہ سول سرونٹ میڈیکل آفیسر ہے وہ مارننگ شفٹ کی انچارج ہے۔ ڈاکٹر مقیم نے ڈاکٹر عائشہ کو مریض کی حالت سے متعلق آگاہ کیا اور انکو بتایا کہ مریض کو آئی سی یو شفٹ کر دے اس وقت آئی سی یو میں دو بیڈ خالی تھے۔ جواب میں ڈاکٹر عائشہ نے یہ کہتے ہوئے مریض کو شفٹ کرنے سے انکار کیا کہ ان کے پاس وینٹی لیٹر دستیاب نہیں۔ دوسرے ادارے کے سرکاری آفیسر کی موجودگی میں اس قسم کی بات کرنا کہ وینٹی لیٹر دستیاب نہیں یقینا نان پروفیشنل رویہ تھا اسلئے کہ کرونا وارڈ کے 25 وینٹی لیٹرز اسی میڈیکل آئی سی یو کی ٹیم کے کنٹرول میں استعمال ہو رہی ہے جہاں ڈاکٹر عائشہ خود کو مارننگ شفٹ کی انچارج بتا رہی ہے۔ ان 25 وینٹی لیٹرز میں آدھے سے زیادہ فارغ ہیں جنکو قابل استعمال بنانے کے لئے صرف فلٹر، آکسیجن سینسرز اور بریتنگ سرکٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی ڈیمانڈ آئی سی یو کے سٹاف ذمہ داری ہے۔
میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر روح المقیم نے موقع پر ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کو آگاہ کیا کہ آئی سی یو کے لئے نئے تعینات شدہ انسٹیوشنل میڈیکل آفیسرز کو جلد ڈیوٹی پر پہنچنے کے لئے آگاہ کیا جائے کیونکہ چند سرونٹس جو خود انسٹیٹیوٹشنل میڈیکل آفیسر کی تقرری کے لئے ہونے والے انٹرویو میں پیش نہیں ہوئے وہ ہسپتال سے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اپنی واپسی روکنے کے لئے انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پریس ریلیز کے مطابق ڈاکٹر عائشہ کی جانب سے ایم ڈی پر لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔