‘اے ڈی آر پرانے ایف سی آر کا نعم البدل ہے’
محراب آفریدی
ضلع خیبر میں لنڈی کوتل اور جمرود کے عمائدین نے اے ڈی آر 2021 کو نامکمل قرار دے دیا۔ صوبائی حکومت نے ضم شدہ چھ قبائلی اضلاع میں الٹرنیٹ ڈیسپیوٹ ریزولوشن ایکٹ اے ڈی آر 2021 نافذ کردیا ہے ٹرائیبل اینڈ ہوم ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اے ڈی آر نافذ کر دیا ہے جو کہ خیبر،کرم، جنوبی وزیرستان، اورکزئی، مہمند اور باجوڑ میں نافذالعمل ہوگا جبکہ باقی قبائلی اضلاع کے حوالے سے نوٹیفیکیشن میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
اے ڈی آر سمجھنے کے لئے آرمی چھاؤنی لنڈی کوتل میں سیکیورٹی فورسز کے حکام، سول انتظامیہ کے ذمہ دار، جمرود اور لنڈیکوتل کے مخصوص ملکان اور عمائدین اور پولیس حکام پر مشتمل جرگہ ہوا۔ عباس آفریدی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ اے ڈی آر میں ایک ثالثین سلیکشن کمیٹی ہوگی جس کے چئیرمین کمشنر ہونگے اور متعلقہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر سیکریٹری ہونگے اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نمائندہ، پولیس آفیسر، جج، سپیشل برانچ کا نمائندہ وغیرہ بھی ممبران ہونگے جو کہ جرگہ کا پورا عمل دیکھیں گے اور خود بھی اس کا حصہ ہونگے اور یہ بہترین ثابت ہوگا۔
دوسری جانب معروف قانون دان لطیف آفریدی نے کہا کہ اے ڈی آر پرانے ایف سی آر کا نعم البدل ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لطیف آفریدی ایڈوکیٹ نے کہا کہ بنیادی طور پر صوبائی اسمبلی اور قبائلی اراکین پارلیمنٹ اگر قبائلی علاقوں کے مسائل اور تنازعات حل کرنا چاہتے ہیں تو وہ قانون سازی کریں تمام قبائلی علاقوں کے لئے کوئی سپیشل قانون بنائیں جو تمام قبائلی عوام کو قابل قبول ہے اور اگر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اے ڈی آر نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ غیر قانونی ہوگا۔
ایک قبائلی مشر نے بتایا کہ جرگے کے اندر موجود مشران نے فورسز کے حکام کو مشورہ دیا کہ چونکہ سول انتظامیہ کسی حد تک قبائلی علاقوں کی روایات اور جرگہ سسٹم کو بہتر طور پر سمجھتی ہے اس لئے ایک نشست ڈی سی خیبر کے ساتھ بھی ہونی چاہئے جس سے اتفاق کیا گیا۔
قبائلی مشران نے اے ڈی آر پر تنقید کرتے ہوئے اس کو نامکمل قرار دیا اور کہا کہ اس سے پہلے قبائلی مشران کو اعتماد میں لیکر ان کی رائے لینی چاہئے تھی جو کہ نہیں لی گئی۔ ذرائع کے مطابق مشران نے حکام کو بتایا کہ قبائلی روایات کے مطابق جرگہ کے ممبران تنازعات کی صورت میں پہلے امن کی خاطر تیگہ رکھتے ہیں اور پھر جرگے کا عمل فریقین کی رضامندی سے شروع کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اے ڈی آر میں فائر بندی یعنی تیگہ اور مچلگہ یعنی جرمانے کا بھی ذکر نہیں اور دوسری بات یہ بتائی گئی کہ جرگہ کونسل میں پورے ضلع خیبر سے پچاس افراد بہت کم ہیں سیکیورٹی فورسز کے حکام نے جرگہ کے شرکاء کو بتایا کہ کونسل کے ممبران میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی بتایا کہ جرگہ ممبران بیس ہزار سے لیکر دو لاکھ روپے تک فریقین سے جرگے اور تنازعہ کی نوعیت دیکھ کر فیس لے سکتے ہیں۔
ایک قبائلی مشر نے بتایا کہ اے ڈی آر کے تحت پہلے جرگہ ہوگا اور جو مطمئن نہیں تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے پولیس اور مقامی مشران کے مطابق اے ڈی آر میں بہت سی چیزوں کی کمی ہے جس کو دور کئے بغیر قبائلی روایتی جرگہ سسٹم بحال نہیں ہو سکتا ان کے مطابق اگر فریقین میں سے ایک جرگہ اور دوسرا فریق عدالت سے رجوع کرنا چاہے تب کیا ہوگا جس کے جواب میں ایک ملک نے بتایا کہ فریقین پہلے جرگہ ہونے دیں مطمئن نہ ہوئے تو عدالت کے دروازے تو پھر کھلے ہیں۔