خیبر پختونخواقومی

اب چترالی خواتین سے شادیوں کے نام پر دھوکہ نہیں چلے گا؛ قرارداد

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبرپختونخوا اسمبلی میں چترال کے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جعلی شادیوں کی روک تھام کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ قرارداد میں بتایا گیا ہے کہ چترال کے علاوہ غیر مقامی افراد اپنی مقامی پولیس سے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ، ذاتی معلومات کے کوائف اور اپنے علاقے کی معززین کی زمہ داری کے اسناد چترال پولیس کو فراہم کرینگے۔ قرارداد کے مطابق چترال پولیس اُس شخص کے متعلقہ علاقے کے پولیس اسٹیشن سے ان کے کوائف کی تصدیق کرے گا "پھر اسکے بعد انہیں شادی کی اجازت ہوگی”۔

یہ قرارداد چترال سے تعلق رکھنے والے وزیراعلٰی خیبرپختونخواہ کے معاؤن خصوصی برائے اقلیت وزیرزادہ نے منگل کو اسمبلی میں پیش کی تھی۔ وزیرزادہ نے ٹی این این کو بتایا کہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے، اس قرارداد نتیجے میں دھوکہ، ٹایم پاس اور کسی ناجائز مقاصد کی حصول کی روک تھام میں بھرپور مدد ملی گی۔
انہوں نے قرارداد کی مقاصد اور ضروریات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چترال ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں پر بیشتر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُنکے بیٹیاں یا خواتین پاکستان کے ترقی یافتہ علاقوں میں شادی ہوکر ایک پُراسائش زندگی گزارے تو اٗسی خواہش کے نتیجے میں اُنکی بیٹیاں یا خواتین مستقبل کیلئے مشکلات کا شکار جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر 80 فیصد تک شادیاں کامیاب اور نیک نیتی کی بنیاد پر ہو رہی ہے لیکن کچھ شادیاں دھوکوں اور لالچ کی بنیاد پر ہورہی ہے جس کیوجہ سے پھر اپنی سسرال میں خواتین کو وہ حقوق نہیں ملتے جو پاکستان کے آئین اور قانون میں وضع کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا "کچھ لوگ شادیاں کرتے ہیں، ہم نے بہت سے ایسے واقعات دیکھیں ہے کہ انہیں شادی کے چند سال بعد طلاق دیا جاتا ہے یا انہیں مار دیا جاتا ہے”۔
وزیرزداہ کا کہنا ہے کہ چترال سے باہر کے علاقوں میں خواتین کی شادیوں کا رواج عام ہوچکا ہے اور شادی کے بعد پھر انہیں درپیش مسائل کا تجربہ بھی ہو چکا ہے جسکی روک تھام اور تحقیق کیلئے علاقائی سطح پر ایک غیر سرکاری تنظیم ‘حقوق تحفظ چترال’تشکیل دیا گیا ہے جس کا مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن اب تک اُنکو قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ انکے مطابق اس قرارداد کے نتیجے میں شادی کے خواہشمند افراد کی تحقیق اور انکوائری کو قانونی تحفظ ملے گا۔

اس سے قبل 2014 میں ضلع چترال کے مقامی حکومت کی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں پولیس سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ خواتین کی شادیوں کی تحفظ کی خاطر غیر مقامی افراد کی تصدیق کیلئے ایک ڈیسک قائم کیا جائے جو اب وہاں پر اپنا کام کر رہی ہے، لیکن صوبائی اسمبلی کے دیگر ارکان موجودہ قرارداد خواتین کو مزید محفوظ بنانے میں اہم سمجھتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رُکن اسمبلی و سماجی کارکن عائشہ بانو نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ قرارداد خواتین کی سیکورٹی اور تحٖفظ میں کلیدی کردار کرے گا اور مطالبہ کیا کہ قرارداد کو فوری طور پر چترال میں نافذ کیا جائے۔
عائشہ نے کہا کہ چترال ایک پسماندہ علاقہ ہے اور وہاں کے بیشتر عوام اپنے حقوق اور زمہ داریوں سے لاعلم ہوتے ہیں تو انکے مطابق یہ قرارداد نہ صرف خواتین کی بنیادی حقوق محفوظ کریں گے بلکہ خواتین کی سمگلنگ میں بھی کمی لائے گا۔

معاؤن خصوصی کے مطابق کے غیر مقامی افراد میں عمر رسیدہ اشخاص بھی ہوتے ہیں جو چترالی خواتین سے شادیاں کرتے ہیں اور شادی کے بعد انکے گھریلوں تنازعات رونما ہوتے ہیں جسکے نتیجے میں خواتین تشدد کا شکار ہوجاتی ہے مگر اب قرارداد سے یہ سلسلہ رُکے گا اور پولیس اہلکار متعلقہ افراد کے تحقیقات کریں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button