پشاور کی سڑکوں پر سندھ اور پنجاب کی بھکارنیں
گل حماد فاروقی
پشاور کے علاوہ خیبر پحتونخواہ میں ان دنوں بھکاریوں کا بھرمار ہے۔ ان بھکاریوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہوتے ہیں جو پٹھانوں والا شٹل کاک برقہ پہن کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھکاری خواتین جو برقعہ پوش ہو کر مساجد یا چوراہوں پر بیٹھ کر بھیک مانگتی ہیں دراصل پٹھان نہیں ہوتیں ان میں زیادہ تر لوگ خانہ بدوش قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جسے عرف عام میں چنگڑی کہا جاتا ہے۔ یہ خواتین پشتو کے چند الفاظ کا رٹہ لگا کر سیکھ جاتی ہیں اور لوگوں کو جذباتی طور پر رمضان اور دین اسلام کے نام پر بلیک میل کرتی ہیں اور اس طرح وہ بھیک مانگ کر شام کے بعد چلی جاتی ہیں۔
ٹی این این کی جانب سے ان بھکاریوں پر تحقیق اور چند ایسی بھکارنوں کی بھی نشاندہی کی گئی جو صبح کے وقت ایک لباس میں آتی ہیں، دوپہر کو وہ چادر اوڑھ کر بازار یا مساجد، چوراہوں پر بیٹھ کر بھیک مانگتی ہیں اور سہ پہر کو بھیس بدل کر پٹھانوں والا برقعہ پہن کر دکانداروں سے بھی بھیک مانگی ہیں اور عصر کی نماز کے وقت مساجد کے سامنے بیٹھ کر پشتو میں چند ایسے جذباتی جملے بول لیتی ہیں کہ لوگوں کی توجہ اور ہمدردی اپنی طرف مبذول کرا دیتی ہیں۔
ان بھکاری خواتین میں بعض ایسی بھی ہیں جن کے پاس شیر خوار بچے بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ زیادہ ہمدردی اور نرم دلی سے ان کے ساتھ پیش آتے ہیں اور ان کو زیادہ بھیک دیتے ہیں۔ یہ خواتین اکثر ان بچوں کے ہاتھ پاؤں یا جسم کے کسی حصے پر پٹی باندھ کر ان کو بیمار ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ لوگ بیماری کے بہانے ان کو زیادہ پیسے دیں۔ بعض اوقات یہ خواتین ان بچوں کے ساتھ کسی ڈاکٹر کا نسحہ بھی رکھ لیتی ہیں تاکہ سادہ لوح عوام کو یقین آ جائے کہ واقعی یہ بچہ بیمار ہے اور ہماری خیرات زکوۃ یا صدقات کا مستحق ہے۔ تحقیق سے یہ انکشاف ہوا کہ ان بھکاریوں کو جنوبی پنجاب اور سندھ کے صوبے سے باقاعدہ طور پر ایک ٹھیکیدار لے کر آتا ہے۔ وہ ٹھیکیدار ان کو صبح سویرے محتلف جگہوں پر بھیج دیتا ہے، ان کی دن بھر کی جمع شدہ پونجی میں ان کو نہایت قلیل رقم دی جاتی ہے اور باقی رقم ٹھیکیدار لیتا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے معروف قانون دان اور فرنٹیئر لاء ایسوسی ایشن کے صدر ملک اجمل خان ان کے حلاف باقاعدہ طور پر پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن بھی جمع کی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ملک اجمل ایڈوکیٹ نے تصدیق کی کہ انہوں نے اس سلسلے میں عدالت عالیہ سے رجوع کیا ہے جسے چیف جسٹس نے گرین بنچ کا کیس قرار دیا ہے یعنی یہ کیس جس بنچ پر لگے گا اس کی سربراہی چیف جسٹس خود کریں گے۔
ملک اجمل ایڈوکیٹ نے بتایا کہ انہوں نے اس کیس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ ڈپٹی کمشنر پشاور کو بھی فریق بنایا ہے، ڈپٹی کمشنر اصغر علی نے عدالت میں آ کر اپنا بیان بھی قلمبند کروایا کہ واقعی ان بھکاریوں کو ٹھیکیدار لے کر آتا ہے۔ ملک اجمل نے بتایا کہ ان میں سے اکثر بچے یا جوان نشہ بھی کرتے ہیں تاہم عدالت کے حکم کے مطابق ان نشئیوں کے ساتھ مریض کے طور پر رویہ اپنانا ہو گا نہ کہ مجرم کا۔
ا
ن کے مطابق Rehabilitation Rules 2001 کے تحت ان کو Patient کے طور پر پیش کیا جائے گا اور ان کا دو مرحلوں میں علاج ہوتا ہے جس میں پہلے پندرہ دن اور دوسرے مرحلے میں ایک ماہ کا علاج ہوتا ہے۔
کوہاٹ روڈ پر ایک مسجد کے سامنے بیٹھنے والی ان بھکارنوں میں سے ایک برقعہ پوش خاتون بھی بیٹھ کر بھیک مانگتی تھی مگر مزے کی بات یہ تھی کہ وہ پشتو زبان میں صرف ایک ہی جملہ کو بار بار دہرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ نام نہ بتانے کی شرط پر اس خاتون نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ بہاول نگر سے آئی ہے، وہاں جُھگیوں میں رہتی ہے مگر اس موسم میں حاص طور پر اسے ٹھیکیدار خیبر پحتونخواہ لے کر آتا ہے اور یہاں چونکہ زیادہ تر لوگ روزے رکھتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اس لئے یہ لوگ بھیگ مانگنے کیلئے یہاں کا انتحاب کرتے ہیں۔
اس خاتون سے جب بچوں اور شوہر کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے اول تو ٹالنے کی کوشش کی مگر جب اسے تھوڑا بہت لالچ دیا گیا تو پھر دھیمے لہجے میں بولنے لگی کہ: پراں جی ساڈا حصم سارا دیڑی جگی وچ بیٹھ کر مرغیاں لڑاندا ویں تے نکھے نکھے بچے کچرا چکدا اے یعنی میرا شوہر سارا دن جھونپڑی میں بیٹھ کر مرغے لڑاتا ہے اور چھوٹے بچے گندگی سے کچرا اٹھا کر بیچتے ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ خود کیوں بھیک نہیں مانگتی یعنی آزاد ہو کر تو جواب ملا کہ ان کیلئے ایسا ممکن نہیں ہے، ٹھیکیدار بڑا ظالم ہے وہ مارے گا۔ مگر ٹھیکدار کا نام یا تو ان کو معلوم نہیں، یا پھر وہ غلط نام ان کو بتاتا ہے یا یہ لوگ ڈر کر ان کا نام ظاہر نہیں کرتے ہیں۔
ان بھکارنوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو جرائم پیشہ ہیں یعنی چوری کرنا، نشہ کرنا وغیرہ۔ ان لوگوں میں بیماریاں بھی پائی جاتی ہیں اور ان بیماریوں کو پھیلانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ان بھکاری خواتین میں بعض ایسی بھی ہیں جو غیر اخلاقی سرگرمیوں بھی ملوث ہوتی ہیں جن کے نشانے پر نوجوان نسل ہوتی ہے اور اکثر ایڈز وغیرہ کی بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں جس سے یہ بیماری مزید پھیل جاتی ہے۔
یہ بھکارنیں محتلف طریقوں سے لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے پیشے نکالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بعض نوجوان لڑکیاں ایسی بھی ہیں جو نوجوان لڑکوں کے سامنے پیش ہو کر مسکراہٹ یا ایسے ناز و ادا سے ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ ان کو دس روپے کی بجائے سو کا نوٹ تھما دیتے ہیں۔
ملک اجمل ایڈوکیٹ سے جب ان بھکاریوں کا معاشرے پر اثرات کا پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے مہذب معاشرے کیلئے ایک ناسور ہے خاص کر نوجوان نسل اکثر بے راہ روی کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرے اور جہاں کوئی غلط ہو رہا ہے اس کی روک تھام کرے۔
یہ بھکاری خواتین اکثر گھروں میں بھی جاتی ہیں اور گھر میں اگر کوئی موجود نہ ہو یا گھر والوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر جو چیز ہاتھ لگے اٹھا لیتی ہیں یعنی ان کیلئے چوری کرنا یا کوئی غیراخلاقی فعل کرنا کوئی جرم ہی نہیں ہے۔
پشاور کی معروف شاہراہ جی ٹی روڈ پر اکثر ایسے بچے بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں اور انہوں نے اپنی اپنی جگہ باقاعدہ تقسیم کر رکھی ہوتی ہیں۔ اکثر یہ خواتین کبھی کبھار بال پوائنٹ بیچنے کے بہانے بھیک مانگتی ہیں، اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ یہ بچے اکثر ان کے اپنے نہیں ہوتے۔ یہ بچپن میں اکثر لاولد بچے اٹھا لیتے ہیں یا کبھی کبھار چرا بھی لیتے ہیں اور ان بچوں کو لوگوں کی زیادہ سے زیادہ ہمدریاں حاصل کرنے کیلئے معذور بھی کروایا جاتا ہے۔
ایک بھکاری کے بارے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس کی باقاعدہ گاڑیاں چلتی ہیں مگر پیشے کے طور پر پھر بھی وہ بھیک مانگتا ہے تاہم ایسے آزاد بھکاریوں کی تعداد بہت کم ہیں۔ ان بھکاریوں میں زیادہ تر ٹھیکیدار کی نفری ہوتی ہے جن کو وہ جنوبی پنجاب، سندھ سے اٹھا کر لاتا ہے اور یہاں ان سے بھیک منگواتا ہے۔
بھیک مانگنے والے ایک لنگڑے بچے کا تعلق کمشور (سندھ) سے تھا جو اپنے ماں باپ کے بارے میں تو نہیں جانتا مگر مالکن کو ضرور جانتا ہے۔ اس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ قدرتی طور پر لنگڑا تھا یا اسے جان بوجھ کر معزور کروایا گیا۔
بعض بھکاری ایسے بھی ہیں جو خود کو بیمار ظاہر کر کے بھیک مانگتے ہیں۔ ر مضان کے مہینے میں یہ خواتین اب نماز تراویح کے وقت بھی مساجد کے سامنے بیٹھ کر بھیک مانگتی ہیں اور کبھی کبھار افطاری کے وقت بھی ان کو چوراہوں پر دیکھا جاتا ہے۔ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ یہ بھکارنیں نہایت گندے کپڑے پہن کر زمین پر بیٹھ کر دن بھر یا رات دیر تک بھیک مانگتی ہیں جس کے عوض ان کو نہایت کم مزدوری ملتی ہے مگر ان سے بھیک منگوانے والے ٹھیکیدار بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور عالی شان محلات میں رہ کر عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں۔
ان بھکارنوں سے جب پوچھا گیا کہ تعلیم کیوں نہیں کرتے تو وہ ششدر ہو کر رہ گئیں جیسے تعلیم کے نام سے یہ لوگ نا اشنا ہیں یا پھر ان کو تعلیم دلوائی نہیں جاتی۔ انہیں مذہب کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں کیونکہ نہ تو ان کو کبھی نماز پڑھتے دیکھا گیا نہ روزہ رکھتے ہوئے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ لوگوں سے اللہ کے نام پر بھیک مانگتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ لوگ نہایت سخت قسم کی قسم دلواتے ہیں اور لوگوں کو اللہ، رسولﷺ کا واسطہ دے کر ان کی جیب سے پیسے نکالتی ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا کہ جمعرات کی شام کو یہ بازاروں میں پھر کر یہ نعرہ لگاتی ہیں کہ جمعرات قبول ہو بابا۔ یہ لوگ جمعرات کی شام کو زیادہ پیسے اکٹھے کر لیتے ہیں اور رمضان میں یہ رقم مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ اکثر سادہ لوح لوگ ان کو زکوۃ بھی دیتے ہیں ان کو کیا معلوم کہ ان کی جمع پونجی سے یہ بھکاری یا تو نشہ کرتے ہیں یا پھر ان کے ٹھیکیدار بڑی بڑی گاڑیاں خریدتے ہیں اور عیاشی کرتے ہیں۔
قصہ خوانی کے عقب میں اسلام آباد بازار کی تاجر یونین کے صدر اور سماجی کارکن عبد الرزاق سے جب ان بھکاریوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے اکثر ایسی خواتین بھی ہیں جن کو اگر بھیک نہ دیں تو وہ بے عزتی کرنے پر اتر آتی ہیں اور اکثر ایسا ہوا بھی ہے کہ یہ لڑکیاں لوگوں کو بلیک میل کر کے ان سے زیادہ پیسے نکال لیتی ہیں، ”پٹھان لوگ اکثر خواتین کا نہایت احترام کرتے ہیں اور ان پر ترس بھی کھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ ٹھیکیدار لوگ اکثر بھیک مانگنے کیلئے خواتین کو استعمال کرتے ہیں۔”
ایک ایسے بھکاری کو بھی دیکھا گیا جس نے مصنوعی آنت پیٹ کے اوپر لگا کر لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ اس کا آپریشن ہوا ہے اور آنت باہر نکل چکی ہے تاہم ان بھکاریوں کا طریقہ واردات نہایت نرالا ہے، ان کو معلوم ہے کہ پٹھان لوگ پردے، نماز، تراویح کا بہت حیال رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پنجاب سے آئی ہوئیں یہ خواتین اکثر پٹھانوں والا شٹل کاک برقعہ پہن کر خود کو نہایت با پردہ اور دیندار خاتون دکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس سلسلے میں محتلف پولیس آفسیرز اور انتظامیہ کے لوگوں سے بھی بات کی گئی کہ ان کو کیوں نہیں روکتے تو ان میں سے اکثر کا یہ کہنا تھا کہ قانون اس مد میں خاموش ہے بھیک مانگنے پر کوئی قانونی قدغن نہ لگنے کی وجہ سے وہ ان کے خلاف کھلم کھلا کوئی کارروائی بھی نہیں کر سکتے، ”دوسری بات یہ ہے کہ عوام زیادہ تر سادہ لوح ہیں اگر ہم ان کے خلاف کارروائی کر کے پکڑ لیتے ہیں تو اکثر پٹھان لوگ مزاحمت کرتے ہوئے لڑنے جھگڑنے پر اتر آتے ہیں کہ آپ نے باپردہ خاتون کو کیوں پکڑا ہے اس لئے ہم بے بس ہیں۔”
ایک مذہبی رہنماء اور ایک جامع مسجد کے خطیب سے جب پوچھا گیا کہ اس سلسلے میں اسلام کا کیا حکم ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بھیک تو کسی کو بھی دی جا سکتی ہے تاہم اسلامی تعلیمات کی رو سے اپنے رشتہ داروں کو صدقات، خیرات دینا زیادہ ثواب کا باعث ہے کیونکہ اس سے ایک طرف ان کا دل موہ لیا جاتا ہے تو دوسری طرف رشتہ داری کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے، ”تاہم جو لوگ نشہ کرتے ہیں ان کو خیرات دینا اچھی بات نہیں ہے کیونکہ وہ انہی پیسوں پر نشہ کرتے ہیں ان کو اگر پیسے نہ دیئے جائیں تو ممکن ہے کہ وہ مجبور ہو کر نشہ چھوڑ دیں۔”
ضلعی انتظامیہ کے ایک ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر نہ نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اگر ان کو افسران بالا سے حکم ملے تو ان سب بھکاریوں کو جمع کر کے واپس پنجاب بھیج دیا جائے گا۔
سماجی کارکن عبد الرزاق کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کو بھیک نہ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے اور اپنے صدقات، خیرات یا زکوۃٰ ایسے لوگوں کو دینی چاہئے جو اس کے مستحق ہوں، ”اگر رشتہ داری میں کوئی غریب یا مستحق ہو تو ان کو دینا بہت بہتر ہے۔”