‘میں عادی ہو چکا ہوں، اب معذوری میری کمزوری نہیں رہی’
جنید ابراہیم
‘سوات میں دہشتگردی عروج پر تھی ، بچے ، بوڑھے، جوان ، خواتین سب بہت ڈر گئے تھے ہر کوئی اپنی جان بچانے کی کوشش میں تھا ، میں نے بھی گھر میں پناہ لی تھی لیکن اس دوران اچانک ہمارے گھر پر راکٹ رانچر داغ دیا گیا اور پھر مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا’
یہ کہانی سوات بلو گرام سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ محمد اسماعیل کی ہے جو 2009 کے دورانراکٹ رانچر لگنے کی وجہ سے دائیں پیر سے محروم ہوگئے ۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے اسماعیل نے بتایا کہ راکٹ لانچر لگنے کی وجہ سے اس کے جسم اور خاص طور پر دائیں پیر پر چوٹ لگی تھی تاہم علاقے میں کرفیو کی وجہ سے ہسپتال اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات موجود نہیں تھے اور جب کرفیو میں نرمی ہوئی تو گھر والے مجھے چارپائی میں اٹھا کر پشاور روانہ ہوئے اور چھ دن بعد ہم بمشکل سے پشاور پہنچ گئے۔
اسماعیل کے مطابق وقت گرزنے اور بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے میرا پاؤں خراب ہوگیا تھا جس کے باعث ڈاکٹروں نے اسکا پاؤں کاٹ دیا اور وہ چالیس دن تک نجی ہسپتال میں زیرعلاج رہا اور اس کے بعد اسے مصنوعی پاؤں لگایا گیا۔
تین بچوں کے باپ محمد اسماعیل کے بقول اگرچہ دہشتگردی کی وجہ سے وہ دائیں پاؤں سے محروم ہوگئے تاہم انہوں نے یہ کبھی اپنی کمزوری نہیں سمجھا اور جب حالات ٹھیک ہوگئے تو انہوں نے اپنے علاقے میں خود کا کاروبار شروع کیا۔
‘ جب میرا علاج مکمل ہوا تو حکومت نے مجھ دو لاکھ روپے کا فنڈ دیا لیکن میرے علاج پر اس سے زیادہ پیسے خرچ ہوئے تھے تاہم اب میں خود کا کاروبار کرتا ہوں اور خوشحال زندگی گزار رہا ہوں’
اسماعیل کہتے ہیں کہ میرا اپنا رکشہ بھی ہے جو میں گھریلوں کا اور ٹرانسپورٹ کیلئے استعمال کرتا ہوں اور کبھی کبھار اگر کوئی سواری مل جائے تو اس پر مزدوری بھی کرتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاؤں نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم اب میں اسکا عادی ہوچکا ہوں اور اس کو اپنی کمزوری تسلیم نہیں کرتا کیونکہ کسی بھی جسمانی طور معذور افراد کو کمزور نہیں ہونا چاہیے محنت اور فرض ہی انسان کی کامیابی کا راز ہے۔
واضح رہے کہ وادی سوات 2006 سے 2009 تک دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہوئی اوراس جنگ میں ہزاروں افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے تھے تاہم 2009 کے آخری مہینوں میں اس جنگ کی خاتمے پر سوات میں امن لوٹ آیا۔