خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

بونیر: محمد شفیق کا ٹوٹا ہاتھ اور یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن

سے جی عظمت تنہا

بونیر کے تحصیل چغرزی سے تعلق رکھنے والے ہونہار طالب علم محمد شفیق نے پشاور یونیورسٹی سے ایم کام سال اول میں تیسری پوزیشن حاصل کرلی۔

محمد شفیق کا دایاں ہاتھ چند سال پہلے کار حادثے میں ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد انہوں نے بائیں ہاتھ سے لکھنا سیکھا۔ اپنے محنت اور لگن سے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کبھی معذوری کا احساس نہیں ہونے دیا۔

محمد شفیق کا کہنا تھا کہ تعلیم کا شوق تو شروع ہی سے تھا اور ہر کلاس کے ٹاپ تھری میں کوئی نہ کوئی پوزیشن آتی تھی۔ جب بی کام (فرسٹ ائیر) میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی تو بدقسمتی سے ایک کار حادثے میں میرا دایاں ہاتھ ٹوٹ گیا۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال ڈگر میں پانچ گھنٹے بے یار و مددگار پڑا رہا جب گیارہ بجے ڈاکٹر آئے تو انہوں نے ٹیکنیشن سے پلاسٹر کرائی جو کہ غلط لگائی گئی جس کی وجہ سے میرا ہاتھ مکمل طور پر پیرالائز ہوا۔

وہ کہتے ہیں بہت علاج کرایا لیکن خاطر خوا کامیابی نہیں ملی۔ عین اس وقت بی کام فائنل کا امتحان شروع ہوا چونکہ میرا دایاں ہاتھ ٹوٹ چکا تھا اور بائیں سے ابھی لکھنا سیکھا نہیں تھا اس لئے جماعت نہم کے طالب علم کو ساتھ بٹھا کر ان سے پرچے لکھوائے اور اسی طرح بی کام میں میرے اول پوزیشن کا خواب ادھورا رہ گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ زندگی کے اس مشکل موڑ پر میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور مسلسل محنت اور لگن سے کام جاری رکھا۔ چونکہ مجھے دائیں ہاتھ سے لکھنے کی عادت تھی اور دایاں ہاتھ فالج زدہ ہو جانے کیوجہ سے مجبورا بائیں ہاتھ سے لکھنا پڑتا تھا۔ شروع میں تو یہ سب عجیب لگ رہا تھا بائیں ہاتھ سے لکھنا، بائیں ہاتھ سے کھانا پینا اور بائیں ہاتھ سے سلام مصافحہ کرنا وغیرہ، لیکن بعد میں عادت ہوگئی اور اب میں ہر کام بائیں ہاتھ سے ہی کرتا ہوں۔

بی کام کے بعد ایم کام میں داخلہ لیا اور الحمدللہ اس سال پشاور یونیورسٹی کے کامرس ڈیپارٹمنٹ میں میری تیسری پوزیشن آئی ہے۔ اگر ہاتھ کی معذوری آڑے نہ آتی تو شائد پہلی پوزیشن حاصل کرلیتا لیکن میری کوشش ہوگی کہ اس سال زیادہ محنت اور کوشش کروں تاکہ فائنل میں اس کمی کو بھی پورا کرسکوں۔

محمد شفیق نے کامرس میں ہی ماسٹر کرنے کے حوالے سے کہا کہ چونکہ دنیا میں کامیاب طبقہ بزنس سے منسلک لوگ ہیں اس لئے میں نے کامرس کا انتخاب کیا اور ائندہ اپنا خود کا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ ہے۔

روزمرہ زندگی میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے محمد شفیق نے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو کبھی محسوس نہیں کروایا کہ میرا ہاتھ کام نہیں کرتا لیکن پھر بھی زیادہ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی سلام یا مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے اور میں ہاتھ نہ اٹھا پاؤں۔ پہلے پہل روٹی کھانے اور دیگر ضروری کام کرتے وقت تکلیف ہوتی تھی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب کافی حد تک کنٹرول حاصل کر چکا ہوں اور اپنے تمام کام خود سے کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مجھ سے گھر فارغ بیٹھا نہیں جاتا انسان تب ہارتا ہے جب وہ ہار مان لیتا ہے اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو دوسروں کے بل بوتے پر زندگی گزارتے ہیں میں اپنی زندگی خود بنانا اور جینا چاہتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ خدا پر یقین کے ساتھ ساتھ انسان میں خود اعتمادی اور بھروسہ ہو تو کوئی بھی شے لاحاصل نہیں ہے۔ میری مسلسل کامیابیوں کے پیچھے یہی راز چھپا ہوا ہے کہ میں ہمت نہیں ہارتا اور خدا کے ساتھ ساتھ خود پر بھروسہ رکھتا ہوں۔

محمد شفیق نے اپنی کامیابی کو والدین کی دعاؤں، اساتذہ کی محنت و شفقت اور اپنی عزم مستحکم کا نتیجہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آئندہ بھی بھرپور کوشش کرکے اپنے ملک و قوم کا نام روشن کروں گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button