بلاگز

ضلع خیبر میں خونی واقعات، انتظامیہ اور پولیس کو سانپ سونگھ گیا ہے!

محراب شاہ آفریدی

ضلع خیبر میں بڑھتے ہوئے خونی واقعات تشویشناک ہیں جن میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ پولیس افسران اور اہلکار بھی قتل اور زخمی ہوئے۔

ضلع خیبر کی تینوں تحصیلوں باڑہ، جمرود اور لنڈیکوتل میں بظاہر سب سے زیادہ قتل و مقاتلے کے واقعات جائیداد اور دیگر تنازعات کی وجہ سے رونماء ہو چکے ہیں، جمرود میں دو دن پہلے بھی شام کے وقت مبینہ طور پر سمگلروں اور پولیس اہلکاروں کے مابین فائرنگ کے تبادلے میں ایڈیشنل ایس ایچ او جمرود نیاز محمد شہید، ایڈیشنل ایس ایچ او حضرت منیر اور کانسٹیبل شعور آفریدی زخمی ہوئے۔

اس سے پہلے جمرود ہی کے علاقے میں ایڈیشنل ایس ایچ او سیف اللہ آفریدی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعہ پر لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ اسی طرح گزشتہ دو دنوں میں باڑہ تحصیل میں دو واقعات پیش آئے جن میں ایک نوجوان جاں بحق اور دوسرا ایک بوڑھا شخص شدید زخمی ہوئے جبکہ دو روز پہلے لنڈیکوتل کے خوگہ خیل علاقے میں دو فریقین کے مابین فائرنگ سے ایک نوجوان طالب علم واجد علی شینواری اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔

زیادہ تر لوگوں نے سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے واردات کو انصاف کی عدم فراہمی سے تعبیر کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ اگر بڑھتے ہوئے زمین کے تنازعات اور پیسوں کے لین دین کے مسائل کے حل کے لئے پولیس فورس تھانوں کے اندر جرگے منعقد کر کے بروقت مسائل اور تنازعات کے حل کی کوشش کرے تو مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن سول انتظامیہ اور پولیس اس حوالے سے وہ کردار ادا نہیں کر رہے جس سے تنازعات کم ہو سکیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انضمام کے بعد زیادہ تر قومی مشران اور ”جرگے باز” عمائدین مایوسی کے شکار ہو کر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں حالانکہ انضمام کے بعد قبائلی روایات اور جرگہ سسٹم برقرار ہیں اور ان چیزوں کا انضمام اور عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے جس طرح پولیٹیکل انتظامیہ مشران کے جرگے منعقد کر کے تنازعات حل کیا کرتی تھی اب سول انتظامیہ اور پولیس کو کس سانپ نے سونگھ لیا ہے کہ وہ اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔

جمرود تحصیل میں چونکہ منشیات کی سمگلنگ کا دھندا عروج پر ہے لیکن اس کو شاہراؤں پر ناکے لگا کر ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک منشیات کے اڈوں کو بلڈوز نہ کیا جائے اور اس طرح جن لوگوں کے پاس مفرور اور سماج دشمن عناصر رہتے ہیں پولیس ان سے باخبر ہیں اس لئے ان خاندانوں کو وارننگ دی جائے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر سے ہاتھ کھینچ لیں ورنہ ان کے خلاف بھی بلا امتیاز کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امن و امان کو قائم کیا جا سکے۔

بہرحال ضلع خیبر کے عوام کو وزیر ستان کے لوگوں کی طرح بڑھتے ہوئے تنازعات اور قتل و غارت پر سخت تشویش ہے اور اب یہ پولیس فورس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قانون کی بالادستی اور امن و امان کے قیام کے لئے سر جوڑ کر بیٹھے تاکہ حالات مزید خرابی کی طرف نہ جا سکیں۔

قبائلی عوام کو اپنی روایات پر عمل درآمد کرتے ہوئے امن و امان کو یقینی بنانا ہو گا ورنہ حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ ہم حکومت اور عدلیہ سے تو انصاف کی توقع کرتے ہیں لیکن خود انصاف، رواداری اور برداشت جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button