مرحوم منیر خان اورکزئی سے سرزد دو بنیادی غلطیاں اور اورکزئی ہاؤس کا زوال
انورشاہ اورکزئی
منافق دوستوں اور غلط فیصلوں کی وجہ سے سیاست میں زوال کے دن بھی شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ سابق رکن قومی اسمبلی مرحوم منیر خان اورکزئی کے ساتھ ہوا۔
جس طرح تعلیم پیغمبری پیشہ ہے سیاست بھی اسی طرح مقدس ہے مگر آج کل ہر جگہ تقریباً منافقت کی سیاست ہوتی ہے جیسا کہ حلقہ این اے 45 میں ہوتی رہتی ہے۔ قرآن پاک کی متعدد آیات میں منافقین کیلئے دوزخ کی سزا کا حکم ہے۔ سور النساء کی آیت 145 میں فرمایا گیا ہے کہ منافقین دوزخ کے سب سے برے درجے میں ہوں گے۔ سور توبہ میں تو منافقین کی صفات کے بارے میں بھی ذکر فرما دیا گیا ہے کہ اس گفتار و کردار والے منافق ہیں۔
اسلام جیسے نظریاتی مذہب نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ کوئی مسلمان ہے تو کوئی غیر مسلم ہے جو بیچ میں ہے وہ منافق ہے اور دوستی اور دشمنی کے درمیان سفر کرنے والا منافق ہی ہو سکتا ہے۔ اندر سے دوستی اور باہر سے دشمنی کیا ہوتی ہے۔ دیکھیں گے کہ یہ سفر کب تک جاری رہتا ہے اور اس سفر کا اختتام کہاں ہوتا ہے؟
سیانے کہتے ہیں کہ ایک جانب پاکستانی عوام ہیں جو بے وقوفی کی حد تک معصوم ہیں اور دوسری جانب پاکستانی سیاست دان ہیں جن کی چالاکیاں تمام حد یں پار کر رہی ہیں۔ جیسا کہ موجودہ ایم پی اے محمد ریاض شاہین ہے۔
سیاست دان عوام کی معصومیت کا بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ عوام غریب سے غریب تر جب کہ سیاستداں اور ان کے زیر سایہ اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک جولاہے کی ماں مر گئی تو اس نے کہا کہ جب سے ماں مری ہے میرا دل موت سے اچاٹ ہو گیا ہے۔ سیاست کے کارزار میں مرکزی کردار ادا کرنے والے رہنما قوم کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں، قوم انھیں اپنے مسیحا کی صورت میں دیکھتی ہے اس لیے ان رہنماؤں کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کی ذہنی پختگی اور کردار کی سلامتی باقی رہے تاکہ وہ قوم کی اپنے قول و فعل کے مطابق ترجمانی کر سکیں۔ یہ نہ ہو کہ عوام ان کے قول و فعل کو دیکھتے ہوئے ان کو اپنے دلوں سے نکال پھینکیں۔
مرحوم حاجی منیر خان اورکزئی کی سیاست میں تب ناکامی اور زوال کے دن شروع ہونے لگے جب ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبدالقادر کو صوبائی الیکشن لڑنے کے لئے تحریک انصاف پاکستان نے ٹکٹ جاری نہیں کیا، سابق فاٹا میں پہلی بار صوبائی الیکشن 20 جولائی کو ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی نے ڈاکٹر عبدالقادر کے بجائے شاہد بنگش کو ٹکٹ جاری کیا تھا۔ مرحوم منیر خان اورکزئی جمیعت علماء اسلام (ف) میں تھے مگر ان کے چھوٹے بھائی مشاورت کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور ٹکٹ کے لئے سرتوڑ کوششیں کیں مگر ناکام رہے اور تاحال ناکام ہیں کیونکہ صوبائی الیکشن کے علاوہ ضمنی الیکشن کے لئے بھی ڈاکٹر عبدالقادر کو ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا اور مرحوم منیر خان اورکزئی کے مخالف فریق ملک فخر زمان بنگش کو ٹکٹ جاری کیا گیا اور جیت گئے۔ اگر مرحوم کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر تحریک انصاف پاکستان کے بجائے جمیعت علماء اسلام (ف) سے صوبائی الیکشن اور یا قومی اسمبلی کا ٹکٹ لیتے تو جیت ڈاکٹر کا مقدر بنتی۔ سیاست میں اُتار چڑھاؤ تو آتے رہتے ہیں، سیاست میں منافقت بھی ہوتی رہتی ہے۔ سکول میں اساتذاہ کرام سے سننا کرتا تھا کہ منافقت کے بغیر سیاست ممکن ہی نہیں۔ لیکن منافقت کے بغیر بھی سیاست دیکھی ہے مگر بہت کم۔
مرحوم حاجی منیر خان اورکزئی سیاست میں آئے، اکتوبر 2002 کے الیکشن میں حصہ لیا، جیت گئے اور یوں حاجی منیر اورکزئی کے لئے کامیابی کے راستے کھل گئے۔ 2002 سے لے کر 2013 تک حاجی منیر خان اورکزئی کے خوب چرچے تھے، پارلیمانی لیڈر بھی رہ چکے تھے۔ اسی دوران سابق آرمی چیف و صدر پرویز مشرف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ کافی اچھے تعلقات تھے۔ علاقے میں ترقیاتی کام بھی شروع ہوئے لیکن شدت پسندی کے باعث 2008 سے 2012 زیادہ ترقیاتی کام نہ ہو سکے۔
کچھ وجوہات کی بناء پر 2013 میں الیکشن نہیں ہوئے، بارہ مئی 2013 ء کو شام کے وقت اعلان ہوا کہ کل یعنی 13 مئی 2013 الیکشن نہیں ہوں گے، اہلیان کرم نے پانچ سال بغیر ممبر قومی اسمبلی گزارے۔ الیکشن کمیشن نے بھی بہت کوشش کی کہ الیکشن ہو جائیں مگر بدقسمتی سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ 2018 کے قومی الیکشن میں حاجی منیر خان اورکزئی جے یو آئی (ف) کے ٹکٹ پر دوبارہ جیت گئے۔ یہ مرحوم کی تیسری جیت تھی۔ اپوزیشن میں تھے اسی وجہ سے کوئی خاص کام نہیں ہوئے اور نہ منیر خان اورکزئی خوش تھے۔
2019 میں صوبائی الیکشن لڑنے کے لئے اور سیاست میں قدم رکھنے کے لئے ڈاکٹر عبدالقادر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ مرحوم کے بڑے بھائی حاجی آفضل خان اور ان کے چچازاد بھائی ایڈوکیٹ وحید االرحمن پہلے سے ہی پی ٹی آئی میں تھے اور تاحال ہیں۔ وحید الرحمن ضلع کرم اور آئی ایس ایف کے صدر رہ چکے ہیں اور آج کل پی ٹی آئی برمنگھم کے صدر ہیں۔
پہلی بار سابق فاٹا میں صوبائی الیکشن ہونے جا رہے تھے کہ ڈاکٹر عبدالقادر نے ٹکٹ کے لئے درخواست کی مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور اسی دن سے اورکزئی ہاؤس پر زوال کے دن شروع ہونے لگے کیونکہ ایم این اے ہونے کے باجود اورکزئی ہاؤس سے کسی نے صوبائی الیکشن نہیں لڑا۔ مرحوم منیر اورکزئی کو مجبوراً جے یو آئی (ف) کے محمد ریاض شاہین کو سپورٹ کرنا پڑا اگرچہ محمد ریاض شاہین 2018 کے الیکشن میں مرحوم منیر اورکزئی کے مخالف تھے اور اس نے رشتہ دار ملک فخر زمان کو سپورٹ کیا تھا، ضمنی الیکشن میں دوبارہ ایم پی اے محمد ریاض شاہین نے ملک فخر زمان کو سپورٹ کیا، محمد ریاض شاہین کو اورکزئی ہاؤس کو سپورٹ کرنا چاہیے تھا کیونکہ اورکزئی ہاؤس ہی کی سپورٹ کی وجہ سے آپ ایم پی اے بنے تھے۔
ممبر قومی اسمبلی ملک فخر زمان مرحوم منیر کے پہلے سے مخالف ہیں اس لئے اورکزئی ہاؤس کی کوشش تھی کہ ملک فخر زمان نہ جیتے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ وفات سے پہلے مرحوم سے دو غلطیاں سرزد ہوئیں، ایک یہ تھی کہ ڈاکٹر عبدالقادر کو پی ٹی آئی کے بجائے جمیعت علماء اسلام (ف) میں شمولیت اختیار کرنا چاہیے تھی، دوسری یہ کہ اگر صوبائی الیکشن کے لئے پی ٹی آئی نے ٹکٹ نہ دیا تو پھر کیا کرنا چاہیے اورکزئی ہاؤس نے دوسرا پلان نہیں بنایا تھا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ٹکٹ بھی نہیں ملا اور صوبائی الیکشن میں مخالف فریق کو سپورٹ بھی کرنا پڑا حالانکہ صوبائی الیکشن حاجی منیر اورکزئی کے لئے آسان تھا کیونکہ وہ ممبر قومی اسمبلی رہ چکے تھے اور پہلے سے ہی عوام کی سپورٹ تھی۔
دو جون 2020 حاجی منیر خان اورکزئی کا انتقال ہوا۔ اس وجہ سے ضمنی الیکشن ہونے پڑے۔ مرحوم کے بھائی ڈاکٹر عبدالقادر نے پھر پی ٹی آئی ٹکٹ کے لئے اپلائی کیا مگر ناکام ہوئے جس کی وجہ سے اورکزئی ہاؤس کو اپنے مخالف ملک فخر زمان کو ہرانے کے لئے دوسرے مخالف حاجی سید جمال کو سپورٹ کرنا پڑا۔ یہ اچھا فیصلہ تھا مگر قسمت نے اورکزئی ہاؤس کا ساتھ نہیں دیا، کچھ قریبی دوستوں نے بھی مفافقت کی جس کی وجہ سے الیکشن ہارنا پڑا، غلطیوں کی وجہ سے ڈاکٹر عبدالقادر نے تاحال الیکشن نہیں لڑا، دوسرا یہ کہ محمد ریاض شاہین ایم پی اے بنا اور تیسرا یہ کہ اب ملک فخر زمان ممبر قومی اسمبلی بن گیا۔ الیکشن کمپئن میں بھی کچھ کوتاہی ہوئی، خیر وہ تو الیکشن کا حصہ ہوتا ہے، اصل غلطی مرحوم کی فوتگی سے پہلے تھی۔
اور اب بھی 2023 میں موقع ہے اگر کئے ہوئے فیصلے واپس لے لئے جائیں، 2023 میں پی ٹی آئی دوبارہ ملک فخر زمان کو ٹکٹ دے گی کیونکہ اس نے ایم این اے کی سیٹ جیتی ہے اور حق بھی اسی کا بنتا ہے اسی لئے ضروری ہے کہ اورکزئی ہاؤس کو جمیعت علماء اسلام (ف) کی رسی مضبوطی سے پکڑے ورنہ 2023 الیکشن میں پھر ناکامی ہو گی، یہ علاقہ جے یو آئی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اس بار بھی جے یو آئی کی پوزیشن مضبوط تھی اور آخر میں دھاندلی کی خبریں آنی لگیں۔
مولانا فضل الرحمن نے بھی پریس کانفرنس کی ہے کہ کسی صورت میں حلقہ این اے 45 کے نتائج تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ دھاندلی ہوئی اور جعلی ووٹ کاسٹ کئے گئے ہیں۔