صوابی میں 14 سالہ افغان لڑکی کے اغوا کا معمہ کیا ہے؟
سلمان یوسفزے
خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں مقیم افغان مہاجر نے الزام عائد کیا ہے کہ مسلح افراد نے بندوق کی نوک پر ان کی 14 سالہ بہن کو اغوا کرلیا۔
ٹی این این کے ساتھ بات کرتے ہوئے 32 سالہ افغان مہاجرحبیب الرحمان نے بتایا کہ گزشتہ روز جمعہ کو دوپہر 1 بجے ضلع صوابی کے مینہ گاؤں میں4 مسلح افراد نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا اور بندوق کی نوک پر زبردستی ان کی بہن کو ساتھ لے گئے اور گھر میں موجود ان کی بیمار ماں، 7 ماہ حاملہ بیوی اور دوسری بہن کو تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں ڈرا دھمکایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افراد کا تعلق صوابی کے ٹوپی گاؤں سے ہے اور وہ ان کی بہن کے ساتھ رشتہ کرنا چاہتے تھے جس پر ان کے گھر والے راضی نہیں تھے اسلئے انہوں نے ان کی بہن کو زبردستی اغوا کرلیا۔
بقول حبیب الرحمان ان کا رواج ہے کہ وہ اپنے خاندان سے باہر کسی دوسرے خاندان کے ساتھ رشتہ نہیں کرتے اور اس سلسلے میں وہ پہلے بھی کئی بار لڑکی کے رشتے سے انکار کرچکے ہیں جس کی وجہ سے ان کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا تھا اور انہیں فون پر مارنے کی دھمکیاں ملتی تھی۔
حبیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کے والد کا انتقال ہوچکا ہے اور وہ خود اسلام آباد میں کام کرتے ہیں اس لیے مسلح افراد نے بلاجھجک ان کے گھر پر دھاوا بول دیا اور ان کے گھر کے تقدس کو پامال کردیا۔
حییب الرحمان کے مطابق واقعہ کے بعد انہوں نے ٹوپی پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرلی لیکن تاحال ان کی بہن اور اغوا کاروں کا سراغ نہ مل سکا۔
دوسری جانب ٹوپی پولیس کا کہنا ہے ایف آئی ار میں نامزد دو ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں اور دیگر ملزمان کے خلاف تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
اس حوالے سے صوابی پولیس کے ترجمان لیاقت علی نے ٹی این این کو بتایا کہ 14 سالہ عائشہ اور 32 سالہ عمران کا ایک دوسرے تعلق تھا اور دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور لڑکی اپنی مرضی سے لڑکے کے ساتھ گئی ہے۔
تاہم حبیب الرحمان نے پولیس کے موقف کا ماننے سے انکار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پولیس بھی ملزمان کے ساتھ ملی ہوئی ہے اس لیے وہ ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے واقعہ کو غلط رنگ دے رہے ہیں۔