خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

”اجمل خٹک بابا کی شاعری مظلوم کی آواز اور درد سے عبارت ہے”

 

ندیم مشوانی

ممتاز پشتو شاعر اور ادیب اسیر منگل نے کہا ہے کہ اجمل خٹک نے پختون قوم کو بیدار کیا، ان کی شاعری مظلوم کی آواز اور درد سے عبارت ہے۔

اکوڑہ خٹک میں عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صدر اور پشتو زبان کے مشہور شاعر، ادیب اور دانشور اجمل خٹک بابا کی گیارہویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ادب اور شاعری سے رشتہ کاٹ کر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اجمل خٹک بابا نے پختونوں کو متحد اور ترقی یافتہ قوم بنانے کا خوب دیکھا۔

اجمل خٹک بابا کی گیارہویں برسی کی تقریب ان کے مزار پر نہایت عقیدت و احترام سے منائی گئی جس میں ملک بھر سے شاعروں اور ادیبوں نے شرکت کی، اس موقع پر ان کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی گئی جبکہ ایک مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا۔

مشاعرے کی صدرات کے فرائض اسیر منگل اور مہمان خصوصی عزیز منروال نے ادا کئے، مقررین نے اجم خٹک کو خراج تحسین پیشِ کیا اور ان کی زندگی پر روشنی ڈالی۔

اس موقع پر ذاکر خٹک، امام منظر، جمیل خٹک، جانس خٹک و دیگر نے اپنے خطاب میں کہا کہ اجمل خٹک نے اپنی ساری زندگی پشتونوں کی خدمت میں گزاری اور اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جیلوں میں گزارا ہے، وہ ایک انقلابی شاعر تھے، انہوں نے پشتونوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کیا کہ ہم کب تک دوسروں کے غلام رہیں گے اور کب تک پشتون قوم دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے گی؟

مقررین نے کہا کہ وہ ہمیشہ دولت مند طبقہ کے خلاف تھے اور اپنی ساری زندگی سادگی کے ساتھ گزاری، جب وہ پارلمینٹ کے ممبر تھے تو سارے ممبران ان کے خلاف تھے کیونکہ وہ ہمیشہ پارلیمنٹ کی مراعات کے خلاف بات کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کو ہمیشہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا۔

اجمل خٹک کون ہیں؟

پاکستان کے نامور سیاستدان، ممتاز شاعر، خدائی خدمتگار تحریک کے بانی خان عبدلاغفار خان المعروف باچا خان کے پیروکار اور نیشنل عوامی پارٹی کے سرگرم رہنما اجمل خٹک 15 ستمبر 1925 کو اکوڑہ خٹک کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔

ابتدائی دینی علوم اپنے گاؤں کی مسجد میں مولانا عبدالقیوم، مولانا عبدالحق اور قاضی محمد امین سے حاصل کیے،  1935ء میں مسجد سے گاؤں کے سکول میں جماعت دوئم میں داخل کر دیئے گئے۔

آٹھویں جماعت میں پورے صوبے کو ٹاپ کیا اور پشاور کے ہائی سکول نمبر ایک میں جونیئر سپیشل کلاس میں داخل کر دیئے گئے۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے ان کے لئے ماہوار چار روپے وظیفہ بھی مقرر کر دیا گیا۔

اجمل خٹک اور راج کپور کی دوستی

پشاور میں اجمل خٹک اور راج کپور ایک ہی سکول کے طالب علم تھے۔ اس وقت راج کپور چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔ دونوں کی دوستی ہو گئی۔

چوںکہ اجمل خٹک ایک مانے ہوئے فٹ بال کے کھلاڑی تھے اور کوئی ٹورنامنٹ یا میچ ایسا نہیں رہا جس میں وہ ایک یا دو گول نہیں کیا کرتے تھے، دیگر لڑکوں کی طرح راج کپور بھی اجمل خٹک کے ”ہیروپن ” سے متاثر تھے۔

اپنی خوب صورتی کی وجہ سے سکول کے لڑکے جب راج کپور کو چھیڑتے تھے تو اجمل خٹک تمام لڑکوں کو وارننگ دیتے کہ اگر کسی نے میرے دوست راج کپور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو وہ اس کی ایسی کی تیسی کر لیں گے اس وجہ سے راج کپور کے والد اور اپنے زمانے کے سٹیج اور فلم کے معروف اداکار پرتھوی راج بھی اجمل خٹک کا اپنے بیٹے جیسا خیال رکھتے تھے۔

خدائی خدمتگار تحریک، تعلیم اور صحافت

یہ 1943ء کا زمانہ تھا۔ اجمل خٹک نے جو پہلے ہی سے خدائی خدمتگار تحریک اور باچا خان سے متاثر تھے، سکول میں اس تحریک کی حمایت شروع کر دی اور اپنے سکول میں خفیہ طور پر طالب علموں کے یونٹ کے انچارج مقرر کر دیئے گئے۔ ”ہندوستان چھوڑ دو” کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنے سے وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ آگے نہیں بڑھا سکے اور 1943ء میں ہی محکمہ تعلیم میں 20 روپے ماہوار پر ”معلم” بھرتی ہو گئے۔ مڈل پاس کرنے کے بعد معلمی کا پیشہ اختیار کیا، لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ علمی استعداد بھی بڑھاتے رہے۔ منشی فاضل، ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ ریڈیو پاکستان پشاور سے بطور سکرپٹ رائٹر وابستہ رہے۔ کافی عرصہ روزنامہ انجام پشاور کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے علاوہ پشتو اور اردو زبانوں کے کئی اخبارات اور رسائل کے مدیر بھی رہے جن میں انجام، شہباز، عدل، رہبر اور باگرام قابل ذکر ہیں۔

اجمل بابا روخان یوسفزئی کی نظر میں

سینئر صحافی، پشتو کے نامور شاعر اور ادیب روخان یوسفزئی کے مطابق اکوڑہ خٹک کے ایک عام کاشتکار حکمت خان کے ہاں سات بہنوں کے بعد پیدا ہونے والے لاڈلے اجمل خٹک کثیرالجہت شخصیت کے مالک انسان تھے۔ وہ بیک وقت پشتو کے ایک سربرآوردہ ترقی پسند شاعر، ادیب اور صحافی بھی تھے اور ایک ممتاز سیاست دان اور دانشور بھی تھے، اجمل خٹک بنیادی طور پر حقیقت پسند اور ترقی پسند شاعر و ادیب تھے اور اس تحریک میں وہ فیض احمد فیض، ندیم قاسمی، فارغ بخاری، میر گل خان نصیر، شیخ ایاز اور اس قبیل کے دیگر شعراء کے فکری ہم سفر رہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی گفتگو میں روخان یوسفزئی نے بتایا کہ اجمل خٹک ترقی پسند ادبی تحریک سے نہ صرف فکری اور نظریاتی طور پر وابستہ رہے بلکہ انہوں نے اپنی تمام زندگی اس تحریک کی بنیادی فکر اور نظریے کے فروغ اور اشاعت میں گزاری۔

روخان یوسفزئی کے مطابق اجمل خٹک کے لیے ترقی پسندانہ رویہ اور پیغام ”حال” کا درجہ رکھتا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ان رویوں کے عملی اظہار کی متنوع صورتیں پیش کیں اور شاید ہی پشتو کا کوئی دوسرا شاعر عملاً اس کی مثال پیش کر سکے۔

”1973ء میں لیاقت باغ فائرنگ کیس کا واقعہ پیش آیا تو نواب محمد اکبر خان بگٹی کے گھر کوئٹہ میں نواب خیربخش مری، غوث بخش بزنجو، اکبر خان، عطاء اللہ مینگل اور ولی خان کے مشورے اور کہنے پر انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انہیں قریبی دوست ”تور لالے” نے بڑے مشکل راستوں سے قبائلی راستے سے افغانستان تک پہنچایا جہاں پندرہ سال تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 1988ء میں پاکستان آئے اور 1990ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، (1990 سے 1993 کے دوران قومی اسمبلی اور 1994 سے 1999 تک سینٹ کے رکن رہے) پارٹی کے مرکزی صدر اور سینٹ کے ممبر بھی رہے، اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ان سے ملاقات کی اور صدارت کا عہدہ پیش کیا۔ اس ملاقات سے عوامی نیشنل پارٹی اور اجمل خٹک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جس پر انہوں نے اے این پی چھوڑ کر ”اپنا کچکول اور رباب” بجانے کا فیصلہ کرتے ہوئے دوبارہ نیشنل عوامی پارٹی پاکستان کے نام سے الگ جماعت بنائی تاہم چند سالوں کے بعد دوبارہ اے این پی میں شامل ہوگئے اور مرتے دم تک اسی پارٹی سے وابستہ رہے۔”

اجمل خٹک، کی ادبی خدمات کا اعتراف
اجمل خٹک پشتو اور اردو کے اہم قلمکاروں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا مجموعہ کلام اردو میں بھی جلاوطن کی شاعری کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 2007 کا کمال فن ایوارڈ بھی عطا کیا تھا۔
7 فروری 2010 کو اجمل خٹک نوشہرہ میں وفات پا گئے اور اکوڑہ خٹک میں آسودہ خاک ہوئے۔
اجمل خٹک کی تصنیفات و تالفیات
پختانہ شعراء (پشتون شعرائ)

د غیرت چغہ (صدائے غیرت)
کچکول (کشکول)
باتور تہ عقیدت (شاہین کو نذرانہ عقیدت)
دا زہ پاگل وم (کیا میں پاگل تھا)
جوند اور فن (زندگی اور فن)
د وخت چغہ (صدائے وقت)
گلونہ تکلونہ (پھول اورجدوجہد)
پاکستان میں قومی جمہوری تحریک (ایک مختصر جائزہ)
گل پرھر
سرے غنچے
ژوند و خوند
عالمی ادب او خوشحال
جلاوطن کی شاعری
د افغان ننگ
قصہ زما دا ادبی ژوند (قصہ میری ادبی زندگی کا)
د ژوند چغہ
پلوشہ
د ژوند شپیلئی
پشتو سہ تہ وائی
نظم
زما ڈائری
نوٹ بک
کوم سیاسی حرکات
د پختنو تاریخ
تاریخ اکوڑہ
راز در راز
اس کے علاوہ اجمل خٹک نے مختلف موضوعات پر سینکڑوں مقالے اور مضامین بھی لکھے ہیں جو پشتو اور اردو کے مختلف جرائد و رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں۔

اجمل بابا کا کلام بشکریہ ماخام خٹک
غٹان غٹان نیکان نیکان پیدا دی
دوی خو لہ زایہ جنتیان پیدا دی
زی ھغہ خوارو لہ جنت اوگٹو
سوک چہ لہ مورہ دوزخیان پیدا دی
ترجمہ۔ بڑے لوگ تو ماں کی کوکھ سے ہی نیک پاک اور جنتی پیدا ہوتے ہیں۔ آئیں ان غریبوں کے لئے جنت کمائیں جو ماں کی کوکھ سے دوزخی پیدا ہوئے ہیں۔ اپنے اردگرد غربت کے مناظر دیکھ کر اپنی نظمفریاد میں خدا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ۔

ستا د جنت د نعمتونو نہ زار
زہ درتہ اوگی پہ جہان ژاڑم
ستا د دوزخ لہ لڑمانو توبہ
زہ درتہ دا لڑمانان ژاڑم
ترجمہ۔ تیری جنت میں ہر قسم کی نعمتوں سے صدقے جاں، لیکن میں اس جہان کے بھوکوں کا رونا رو رہا ہوں۔ تیری دوزخ کے بچھوؤں سے پناہ مانگتا ہوں لیکن ان بچھوؤں کا کیا کروں جو یہاں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔

دلتہ د گیڈے دوزخ تش گرزو
ھلتہ شو ستا د دوزخونو خشاک
دلتہ د دغہ قصابانو خوراک
ھلتہ د ھغہ خامارانو خوراک

ترجمہ۔ ادھر بھی پیٹ کی دوزخ خالی خولی لئے پھرتے ہیں اور ادھر بھی جا کے دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ ادھر سرمایہ داروں اور جاگیر داروں ( قصابوں ) کا لقمہ زیست بنے ہوئے ہیں اور ادھر دوزخ کے سانپوں کا مشق ستم بنیں گے۔

نہ مو زان تور کہ او نہ سپین پاتے شو
نہ د دنیا شو او نہ د دین پات شو

ترجمہ:- نہ کالے رہے اور نہ سفید، نہ دین کے رہے اور نہ دنیا کے

ستا د سنگینو فیصلو نہ قربان
ولے حیران یم کوم قانون اومنم
تہ خو د خپل قارون پہ مزکے منڈے
زہ د پہ سر باندے قارون اومنم

ترجمہ۔ مولا تیرا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر لیکن حیران ہوں کو نسا فیصلہ تسلیم کر لوں؟ دنیا میں قارون جیسے بڑے سرمایہ دار کو تو، تو نے اس کی دولت سمیت زندہ زمین میں دھنسا دیا اور (بھلا میں کیسے) اج کے سرمایہ دار کو قارون مان لوں۔

ستا پہ رضا زما رضا دہ ربہ
کانڑے ہم نس پورے تڑلے شمہ

خو چہ بل خامار پہ خزانو اووینم
آخر انسان یم سنگہ غلے شمہ

ترجمہ۔ اے اللہ تیری رضا پہ میری رضا ہے ۔ میں تو اپنے پیٹ پر پتھر بھی باندھ سکتا ہوں۔ مگر جب کسی سرمایہ دار کو ناگ کی طرح دولت پر پھن پھیلائے بیٹھا ہوا دیکھتا ہوں تو پھر آخر انسان ہوں خاموش کیسے رہ سکتا ہوں۔

ستا د جنت پہ طمعہ طمعہ چہ مری

دھغہ اوگو پہ سلگو مے قسم

پہ دے دوزخ کے یے نور نشم لیدے

ستا د رضوان پہ منارو مے قسم

ترجمہ۔ ان بھوکے اسر افکاس کے مارے ہوئے لوگوں کی آہوں کی قسم جو جنت کی امید میں ہر قسم کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں میں ان غریبوں کو اس سرمایہ دار دنیا کی دوزخ میں اور نہیں دیکھ سکتا۔

یا خو د زمکے پہ دے ارتہ سینہ

ماتہ خپل ژوند زما جنت راکڑہ

یا د نہر دوزخی مرگ نہ مخکے

د یوے چغے اجازت راکڑہ

ترجمہ۔ اے میرے رب !یا تو مجھے اس وسیع زمین اور اس کی نعمتوں پر دسترس دیں یا پھر ایک بھوک کے مارے مانند دوزخی کے ایک نعرہ مستانہ کی اجازت مرحمت فرما کیونکہ اس سرمایہ دار اور جاگیردار معاشرے میں میرا انجام ایک دوزخی کی موت جیسا ہے۔

چہ دا ستا اوگی ستا پہ خوان ماڑہ کڑم

یا پہ خپل زان باندے کارغان ماڑہ کڑم

ترجمہ۔ یا تو انقلاب برپا کر کے غریبوں کو تیری نعمتوں تک رسائی دے دوں گا اور اگر انقلاب لانے میں ناکام ہوا تو کیا ہو گا زیادہ سے زیادہ میری لاش کوؤں کی خوراک بن جائے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button