سال 2020ء کے دوران 50 صحافیوں کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا
میڈیا کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے دوران دنیا بھر میں کم از کم پچاس صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
تنظیم نے صحافیوں کو نشانہ بنا کر قتل کیے جانے کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
افغان جرنلسٹس سیفٹی کمیٹی کے سربراہ نجیب شریفی کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ حالات آج جتنے خطرناک ہیں، اتنے پہلے کبھی رہے ہوں، کیوں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا تمام صحافی خطرات سے دوچار ہیں۔ نجیب شریفی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، گزشتہ صرف چھ ہفتوں کے دوران ہم نے چار صحافیوں کو کھو دیا، انہیں بہت قریب سے گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا یا پھر ان کی کاروں میں بم نصب کر دیے گئے تھے، جن کے پھٹ جانے سے ان کی موت ہوئی۔
غیرسرکاری بین الاقوامی تنظیم ‘رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز’ (آر ایس ایف) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں بھی ویسے ہی رجحانات دیکھنے کو ملے، جیسے کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں نظر آئے۔
رپورٹ کے مطابق گو کہ مسلح تصادم یا دہشت گردانہ حملوں کی رپورٹنگ کرنے کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن صحافیوں کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
رواں برس مارے جانے والے 50 میں سے 40 صحافیوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔ دسمبر کے اوائل میں افغانستان میں ایک حملے کے دوران ہلاک ہو جانے والی خاتون ٹی وی میزبان ملالہ میوند بھی ٹارگٹ کلنگ کی مثال ہیں۔ داعش نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
نجیب شریفی تاہم کہتے ہیں کہ حملہ آوروں کی شناخت کرنا اور ان کے مقصد کا پتہ لگانا اکثر ناممکن ہو جاتا ہے گو کہ ماضی میں اس طرح کے حملوں کے لیے ‘اسلامک اسٹیٹ’ یا طالبان کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے لیکن جب سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات شروع ہوئے ہیں معاملات نسبتاً کم واضح ہو پا رہے ہیں۔
کابل سے کام کرنے والی صحافی مریم معروف نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خاتون صحافیوں کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ”افغانستان کے دشمن اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ افغان خواتین کی نئی نسل ان رواجوں کو چیلنج کررہی ہے جنہیں افغان کلچر کا حصہ ہونے کا دعوی کیا جاتا رہا ہے۔”
صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملکوں کی فہرست میں میکسیکو اس برس بھی سر فہرست ہے۔ وہاں رواں سال کے دوران منظم جرائم اور بدعنوانی کی تفتیش کے دوران کم از کم آٹھ صحافی مارے گئے۔
عراق میں جنوری 2020 میں حکومت مخالف مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران تین صحافیوں کی موت واقع ہوئی۔ آر ایس ایف کے مطابق ان میں سے کم از کم ایک صحافی کو ایک بندوق بردار نے نشانہ بنا کر گولی ماری۔ حملہ آور مذکورہ واقعے کی رپورٹنگ کرنے سے میڈیا کو روک رہا تھا۔
پاکستان میں مئی میں صحافی ذوالفقار مندرانی مردہ پائے گئے۔ ان کے جسم پر اذیت دینے کے نشانات تھے۔ ان کے دوستوں اور جاننے والوں کا دعوی ہے کہ ان کی موت کا تعلق منشیات کے ایک کیس میں پولیس افسران کی مبینہ ملی بھگت کی تفتیش سے تھا۔
بھارت کو صحافیوں کے لیے پانچ سب سے زیادہ خطرناک ملکوں میں شامل کیا گیا ہے۔ آر ایس ایف کے مطابق سن 2010 کے بعد سے اس ملک میں ہر برس کم از کم پانچ صحافی مارے گئے ہیں۔
آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ رواں برس کم از کم چار صحافی مقامی منظم جرائم گروپوں کے حملوں میں مارے گئے۔ آر ایس ایف کی اس رپورٹ کی صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک دوسری تنظیم ‘کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس’ (سی پی جے) نے بھی تصدیق کی ہے۔
سی پی جے کا کہنا ہے کہ بھارتی صحافیوں کو مجرموں کے علاوہ ریاستی اہلکار بھی ہراساں اور خوف زدہ کرتے رہتے ہیں۔
سی پی جے نے صحافی راکیش سنگھ کے قتل کی مکمل تفتیش کا مطالبہ کیا ہے، جنہیں نومبر کے اواخر میں ایک حملے کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔
سی پی جے کی ایشیا شعبے کی سینئر ریسرچر عالیہ افتخار کا کہنا ہے، حکام کو ایسے بہیمانہ جرائم کی مذمت کرنی چاہیے اور یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ بدعنوانیوں کے خلاف رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس ماہ کے اوائل میں ایران نے فرانس سے کام کرنے والے صحافی روح اللہ زام کو پھانسی دے دی تھی۔ گزشتہ30 برسوں میں پھانسی دیے جانے والے وہ پہلے صحافی تھے۔
ان پر مبینہ طور پر سن 2017 میں حکومت مخالف مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام تھا۔ عراق کے ایک سفر کے دوران انہیں اغوا کر کے ایران میں قید کر دیا گیا تھا۔
آر ایس ایف نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ رواں برس کووڈ انیسس کی وجہ سے بھی سینکڑوں صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ان میں سے بعض صحافی کورونا کی رپورٹنگ کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے۔
آر ایس ایف نے روس، مصر اور سعودی عرب میں ایسے تین کیسز کا بھی حوالہ دیا ہے، جہاں صحافیوں کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے گرفتار کیا گیا اور کوویڈ انیس کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی جب کہ انہیں طبی دیکھ بھال سے محروم رکھا گیا۔