خیبر پختونخواکورونا وائرس

کیا خیبرپختونخوا کی جیلیں دیگر صوبوں کی جیلوں سے واقعی بہتر ہیں؟

خیبرپختونخوا کے محکمہ جیل خانہ جات نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پاکستانی جیلوں کے حوالے سے اس خدشے کو مسترد کردیا ہے کہ گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی کو کورونا وبا کے پیش نظر خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔ وزیراعلی محمود خان کے جیل خانہ جات کے معاون خصوصی تاج محمد نے اس حوالے سے کہا ہے کہ کم از کام خیبرپختونخوا پر اس موقف یا خطرے کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ کورونا وائرس کے دوسری لہرکے دوران صوبے کے کسی بھی جیل میں بھی کورونا وائرس کا ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے چند دن پہلے اپنی مشترکہ رپورٹ ” پریزینرز آف دی پینڈیمک” میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر یعنی مارچ سے اگست تک پاکستان کے مختلف جیلوں میں قید دو ہزار 313 قیدیوں کا سماجی فاصلہ نہ رکھنے کی وجہ سے کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھا جارہا ہیں۔
دوسری جانب ٹی این این سے بات کرتے ہوئے تاج محمد نے کہا ہے کہ جب کورونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہوئی تو انہوں نے تمام جیلوں میں ملاقات پر پابندی لگائی ہے اور جو نئے قیدی آرہے ہیں ان کے لئے باقدہ طور پر قرنطینہ سنٹرز بنائے ہیں پہلے ان کی سکریننگ ہوتی ہے اور بعد میں ان کو قرنطینہ کیا جاتا ہے اور اگر ٹیسٹ منفی آئے تو جیل کے اندر چلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے کرم سے ابھی تک ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا۔

کیا خیبرپختونخوا کی جیلیں دیگر صوبوں کی جیلوں سے واقعی بہتر ہیں؟تاہم پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے چیئرمین راجہ لیاقت علی نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا کی دوسری لہرمیں ملک کے مختلف جیلوں میں اب تک 700 کے قریب قیدیوں کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک خطرناک مسلہ ہے اورانکے خیال میں اس کا روک تھام اتنا ہی ضروری ہے۔ راجہ لیاقت نے بتایا کہ جیلوں میں موجود قیدیوں کو محفوظ بنایا جائے اور نئے آنے والے قیدیوں کے لئے بہتر حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ وہ اس موذی مرض سے بچ سکے۔ انہوں نے بتایا کہ کرونا کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں اس لئے اگر ان عمر رسیدہ افراد کو بشمول ان خواتین اور بچوں کو بھی رہائی دلائی جائے جو کسی بڑے جرم میں شامل نہ ہو اگر ایسے افراد کو ریلیف دیا جائے تو بہت اچھا ہو گا۔

انہوں نے بتایا کہ باتوں کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم نے ٹوئٹ بھی کیا ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوا ہے۔ راجہ لیاقت نے حکومت سے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر ایکشن لیا جائے اور ایکشن اس حد تک لیا جائے کہ عمارتیں کرائے پر لی جائے اور جو قیدی کرونا سے متاثر ہے ان کو علیحدہ رکھا جائے۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے مطابق پاکستان کے جیلوں میں اس وقت 80 ہزار کے قریب قیدی مختلف جیلوں میں موجود ہے جس میں 1200 خواتین اور لڑکیاں جبکہ ایک ہزار کے قریب اٹھارہ سال سے کم عمر بچے شامل ہیں۔
اسی طرح محکمہ جیل خانہ جات خیبر پختونخوا کے ڈپٹی ڈاریکٹر حشمت علی کے مطابق صوبے میں میں 11 ہزار 362 افراد کی گنجائش ہے جبکہ موجودہ حالات میں 12 ہزار 48 مرد اور 185خواتین اور لڑکیاں شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نا اٹھائیں تو جیلوں میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔


خیبر پختونخوا کے جیلوں میں اصل صورتحال کیا ہیں ؟
مردان شہرمیں واقع سٹی پولیس سٹیشن کا حوالات تقریباً دس فٹ لمبا جبکہ آٹھ فٹ چوڑا ہے اوراس میں اس وقت صرف تین ملزمان موجود ہیں۔ تھانہ محرر کا دعویٰ ہے کہ جب سے کرونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی ہے تب سے حوالات میں کم سے کم ملزمان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حوالات میں بند ملزمان میں سے کسی نے بھی ماسک نہیں لگایاہے جبکہ تھانہ محررمحمدصدیق نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ تھانے کے عملے نے حوالات میں بند ملزمان کو نہ صرف ماسک بلکہ سینٹائزر بھی دیئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جو بھی ایس او پیز جاری ہوئی ہیں ان کے مطابق حوالات میں زیادہ لوگ بھی نہیں رکھتے تاکہ آپس میں تین سے چارفٹ کا فاصلہ موجود ہو اور جب ملزمان زیادہ ہو تو دوسری جگہ کو بھیج دیتے ہیں تاکہ حوالات میں کم سے کم لوگ رکھیں جائے۔

کیا خیبرپختونخوا کی جیلیں دیگر صوبوں کی جیلوں سے واقعی بہتر ہیں؟لیکن حالیہ دنوں میں تیمرگرہ جیل سے رہائی پانے والے قیصر حبیب کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو وائرس سے بچاو کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ جیل میں ایک بیرک میں 50 سے 55 افراد کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ کرونا کی پہلی لہر میں ایک بیرک میں ایک سو دس تک قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ قیصر نے بتایا کہ ایک قیدی کو سونے کے لئے ڈھائی فٹ کی جگہ مختص تھی تاہم جب جگہ کم پڑ جاتی تھی اور دوسرا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا تو درمیان میں چلنے پھرنے کے لئے چھوڑنے والے راستے میں قیدیوں کے لئے بستر بچھائے جاتے تھے۔ جیل میں سماجی فاصلے اور ماسک کا کوئی تصور نہیں تھا البتہ ماسک کا استعمال صرف اور صرف اس صورتحال میں ہوتا تھا جب قیدیوں کو ٹرائل کے لئے عدالتوں میں لے جایا جاتا تھا اور ان پر دکان میں ماسک فروخت کیا جاتا تھا۔
کرونا وائرس کی دوسری لہر نے ایک مرتبہ پھر سراٹھالیاہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ دوسری لہرپہلی لہرسے تیز اور خطرناک ہے اسلئے سماجی فاصلے کا زیادہ سےزیادہ خیال رکھا جائے لیکن مردان پولیس سٹیشن سٹی حوالات کمرہ اتنا بڑا نہیں ہے جس میں پانچ سے زیادہ ملزمان کے درمیان سماجی فاصلہ یقینی بنایاجائے۔ حوالات میں بند ملزم زوہیب ٹی این این کو بتایا کہ کہ تھانے کے عملے کی جانب سے ایک دوسرے سے دور رہنے پر زور دیاجاتاہے انہوں نے کہا کہ حوالات میں دو یاتین افراد ہوتے ہیں اورایک دوسرے سے دور رہتے ہیں ماسک اور ہاتھوں پر ڈیٹول بھی استعمال کرتے ہیں۔
حوالات کے حالات تو ایک طرف ، مردان سنٹرل جیل کے عملے کا بھی دعویٰ ہے کہ وہاں ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کیا جاتا ہے۔
مردان جیل نہ صرف صوبے کا بلکہ ملک کے بڑے جیلوں میں شمار ہوتاہے اوراس وقت اس میں دو ہزار تین سوسے زیادہ قیدی موجود ہیں۔
اس حوالے سے مردان سنٹرل جیل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ وقاص خان نے بتایا کہ جیل کے اندر کرونا ایس اوپیز پر عمل ہوتاہے اور جیل کے اندر قرنطینہ سنٹر بھی بنا دیا گیاہے جس میں مشتبہ قیدی رکھے جاتے ہیں اورڈاکٹرباقاعدہ طورپر انکامعائنہ کرتے ہیں۔ وقاص خان نے کہاکہ جیل کے اندر روزانہ سپرے کرتے ہیں تاکہ جراثیم نہ پھیلے جیل میں قیدیوں کو ماسک اورسینئٹائزردیئے ہیں صرف قیدیوں اور حوالاتیوں کو نہیں جبکہ تمام سٹاف کو دیئے ہیں اور سرکل میں بھی جتنے جیل ہیں انکو بھی ماسک اورسینئٹائزردیئے ہیں اوراس کےعلاوہ انٹرویوز روم صوبائی حکومت کے آرڈر کے مطابق بند کردئے گئے ہیں تاکہ وائرس نہ پھیلے۔
سیکورٹی خدشات اور کروناایس او پی کے نام ہمیں جیل کے بیرکس کا دورہ کرنے سے منع کردیا گیا لیکن بعض زرائعوں کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر کروناکی روک تھام کے لئے انتظامات اور حالات بھی اتنے اچھے نہیں ہے جتنا حکومت اور انتظامیہ کے افسران دعوا کرتے ہیں۔
جیل سے رہا ہونے والے قیدی کیا کہتے ہیں ؟
باجوڑ سے تعلق رکھنے والا سدیر خان بھی پہلی لہر کے دوران جیل میں کرونا وائرس سے متاثر ہوا تھا، اپنی کہانی بتاتے ہوئے سدیر نے بتایا کہ جب میں جیل میں تھا تو اس وقت اخبار کے زریعے خبر ہوئی کہ کرونا وباء پھوٹ پڑی ہے جب باجوڑ میں پہلا کیس آیا تو اس وقت ہم بہت پریشان ہوئے کہ اگر یہ وائرس جیل میں پہنچے تو ہمارا کیا حشر ہوگا کیونکہ جیل کی کمرے بہت چھوٹے تھے اور اس میں قیدیوں کی تعداد زیادہ تھی، ہم نے اپس میں بیٹھنا کام کر دیا پہلے ہم لیوی لینڈ جیل میں تھے، وہاں مسائل ذیادہ تھے، صرف تین بارک تھے بعد میں ہمیں نئی تعمیر کردہ جیل منتقل کیا، وہاں سہولت زیادہ تھی۔


‘وہاں میں بیمار ہوا، میرا بخار تھا، سینے کا بھی مسئلہ تھے، تمام تر اعلامات زکام کے تھے، میں اس کو زکام ہی سمجھ رہا تھا، ڈاکٹروں کی ٹیم اگئی اور ہمارے ٹیسٹ ہوئے مجھ سمیت تین بندوں میں کرونا وائرس کی تشخیص کے بعد کورنٹائن سنٹر منتقل کیا گیا، پھر کورنٹائن سنٹر میں ہمارے ٹیسٹ ہوئے جو منفی آگئے اور ہمیں دوبارہ جیل منتقل کر دیا’ سدیر نے بتایا۔
بیماری اللہ کا امر ہیں لیکن قیدیوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اب کرونا وائرس کی دوسری لہر میں قیدیوں کے ساتھ ملنے پر پابندی ہے کوئی نہ ان کی پاس جا سکتا ہے نہ کھانا پہنچا سکتے ہیں، عدالتوں میں کیسز التوآء کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو دن ہو گئے کہ وہ ضمانت پر جیل سے نکل چکا ہے جبکہ باقی ساتھیوں کیلئے دعا گو ہے کیونکہ جیل میں اگر بیماری لگ جائے تو انسان بہت مشکل میں پھنس جاتا ہے۔

اس سٹوری کے لیے سوات سے رفیع اللہ، مردان سے عبد الستار اور باجوڑ سے مصباح الدین اتمانی نے تفصیلات فراہم کی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button