‘خیبر پختونخوا میں جوائنٹ فیملی کی جڑیں آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں’
سلمی جہانگیر
‘ایک زمانہ تھا کہ خیبر پختونخوا میں جوائنٹ فیملی کو برکت کی علامات سمجھا جاتا تھا لیکن اب جوائنٹ فیملی کی یہ جڑٰیں آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہیں’
پاکستان کے باقی معاشروں کی طرح پختون معاشرے میں بھی جوائنٹ فیملی کا رواج تقریبا اب ختم ہونے والا ہے، آج کل زیادہ تر لوگ الگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بہت کم لوگ جوائنٹ فیملی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پختون معاشرے میں بھی خاندانوں کا ایک ہی گھر میں مل جل کر رہنے کا رواج کم ہورہا ہے لیکن اس میں کئی سال لگیں گے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے لیکچرر ڈاکٹر ظفر اقبال نے کہا۔
دوسری جانب زیتون جس کا تعلق پشاور سے ہے کہتی ہیں کہ انکے خیال سے جوائنٹ فیملی میں رہنا اچھی بات ہے کیونکہ اگر گھر سے کہیں جانا ہو تو بغیر کسی پریشانی کے جا سکتے ہیں رات کو گھر خالی ہوگا تو چوروں کی فکر بھی نہیں رہتی اگر گھر میں کوئی ایک بندہ بیمار ہو جائے تو دوسرا بندہ اس کی اوراس کے بچوں کی دیکھ بھال کر سکتا ہے. زیتون کا مزید کہنا ہے کہ اس کا شوہر گھر پر نہ ہو تو بھی پریشانی والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کے گھر میں دوسرے بڑے بزرگ موجود ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گھر میں مل جل کر رہنے سے تمام خواتین مل کر گھر کا ایک ایک کام کرکے جلد ختم ہو جاتا ہے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا ہے گھر کی خواتین مل جل کر مہمانوں کی خاطر مدارت کرتی ہیں. زیتون اپنے گھر والوں سے بہت خوش ہیں. وہ سمجھتی ہے کہ جوائنٹ فیملی میں رہنا خوش قسمتی کی علامت ہے گھر میں ہر وقت رونق لگی رہتی ہیں۔
جبکہ اسکے برعکس پشاور اندرونی شہر کی رہنے والی سونیا جوائنٹ فیملی کی نسبت الگ رہنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں کیونکہ جوائنٹ فیملی میں رہنا نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک خاتون میں گھر کے کام پر ہر وقت لڑائی ہوتی رہتی ہیں.
سونیا نے بتایا کہ وہ اس لئے باقی فیملی والوں سے الگ رہتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے ہر وقت گھر میں تو تو میں میں ہوتی رہتی تھی جس کی وجہ سے سونیا نے الگ گھر میں رہنے کو ترجیح دی سونیا کا مزید کہنا ہے کہ جوائنٹ فیملی میں وہ بچوں کو وہ آسائشیں نہیں دے سکتی ہیں جو وہ چاہتی تھی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کے بچے بڑے ہو رہے ہیں تو پھر الگ گھر میں بچوں کی پرورش اچھے طریقے سے ہو سکتی ہے ان کی مرضی سے ہر کام ہوسکتا ہے جبکہ جوائنٹ فیملی میں اتفاق نہ ہو تو ہر وقت لڑائی ہوتی ہے جسکی وجہ سے بچوں کے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے۔
سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے لیکچرر ڈاکٹر ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ جب ریاستیں نہیں بنی تھی اور لوگ قبائیلی علاقوں میں رہتے تھے تو اس زمانے میں وہ بڑے مضبوط سمجھے جاتے تھے جو جوائنٹ فیملی میں رہتے تھے لیکن جب ریاستیں بنی اور لوگ جدید دور میں داخل ہونا شروع ہوگئے تو جوائنٹ فیملی کو نقصان پہنچنا اور جوائنٹ فیملی کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
جدید دور میں جوائنٹ فیملی کی جڑیں کمزور ہونا شروع ہو گئی جوائنٹ فیملی سسٹم کا کام آہستہ آہستہ ریاستیں کرنے لگی جیسے حفاظت کرنا،معاشی، تحفظات، شہری حقوق بچوں کی دیکھ بھال کرنا، تو لوگ آہستہ آہستہ جوائنٹ فیملی اور قدیم روایات سے نکل کر جدید دور اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے لگے اور پرانی روایات کی جگہ جدید روایات نے لینی شروع کی جس میں جوائنٹ رہنے کی سوچ بھی آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوگئی۔
ڈاکٹر ظفر اقبال نے مزید بتایا کہ باقی صوبوں کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی پرانی روایات دم توڑ رہی ہے جہاں بہت سے لوگ جوائنٹ فیملی کو اچھا نہیں سمجھتےکیونکہ اکثر خواتیںن میں نااتفاقی کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہیں لیکن دوسری طرف لوگ آج بھی جوئنٹ فیملی کو ترجیح دیتے ہیں، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ آج بھی پختون فیملی والے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں ہر لحاظ سے چاہے وہ معاشی لحاظ سے ہو یا لین دین کا معاملہ ہو، شادی بیاہ ہو، کوئی خوشی ہو یا غم، لیکن اس کے باوجود جو جوان طبقہ ہےوہ جوائینٹ فیملی میں رہنا پسند نہیں کرتے لیکن پھر بھی بڑے بزرگوں کی وجہ سے اور ان کے احترام میں الگ رہنے کو ترجیح نہیں دیتے اور فیملی کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔