خیبر پختونخوا

اپنے گھرانوں کا بازو بننے والی خواتین سے ملئے!

سلمہ جہانگیر

وہ خواتین جن کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی اب وسائل کی کمی نے انہیں گھروں کے اندر ہی کمانے پر مجبور کیا۔

کسی زمانے میں ان عورتوں کو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا جو گھر کے کاموں کے علاوہ کمائی کے لئے گھر سے باہر نکلتی تھی لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں زندگی کی ضروریات بڑھنے لگی وہاں ان ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وسائل کی کمی پیدا ہوئی. وسائل پیدا کرنے کے لیے عورتیں بھی مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوئی اور کمانے کے مختلف طریقے اپناکر وہ خواتین جن کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں انہوں نے گھر کے اندر ہی کمانے کے ذرائع اپنائیں۔

اسی حوالے سے قمر دین گڑھی سے تعلق رکھنے والی بشری کا کہنا ہے کہ وہ بی اے پاس ہے اور سلائی کڑھائی میں ڈپلومہ کر چکی ہیں،لیکن انہیں اس سے آگے پڑھنے کی اجازت نا ملی تو اس نے سلائی سنٹر میں داخلہ لیااور کڑھائی سلائی سیکھ کر ڈپلومہ لیا. اسکے بعد اسکی شادی کروا دی گئ۔

شادی کے کچھ عرصہ کے بعد بشری کے گھر کے معاشی حالات بہت خراب ہوئے تو اس نے شوہر کی اجازت سے گھر میں سلائی کا کام شروع کیا چند مہینوں میں ہی وہ آس پاس کے علاقوں میں مشہور ہو گئیں۔ اور اب بہت سی خواتین سلائی کے لئے اسکے پاس کپڑے لے کر آتی ہیں جس سے اسے اچھا معا وضہ ملتا ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ گھر کے خرچے میں مدد کرتی ہیں اور آسانی سے گھر کا گزارہ ہو رہا ہے۔

اسی طرح گل روما جس کا تعلق ضلع پشاور کے گاؤں نیامی سے ہے کا کہناہے کہ اسکے چار بچے ہیں شوہر نے دوسری شادی کی ہے اور اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہ رہا ہے وہ شوہر کے ہوتے ہوئے بھی بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں وہ ان مشکل حالات میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں.

گل روما روپوں کے عوض کپڑوں پر کڑھائی کا کام کرتی ہیں اسکے علاوہ وہ کپڑوں پر لگنے والی شیشوں کو فریم میں بند کرتی ہیں ،پراندے بناتی ہیں اور سویٹرز بنتی ہیں. پھر شہر جا کر وہ مینہ بازار کے دکانداروں کو فروخت کرتی ہیں جس سے اچھا خاصہ معاوضہ ملتا ہے اور زندگی کا پہیہ چل رہا ہے۔

آجکل خواتین میں زیادہ بڑھتے ہوئے نوکریوں کے رحجان کے حوالے سے ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد شاہد نے کہا کہ جو خواتین آجکل مختلف نوکریاں کر رہی ہیں تو انکے بہت سی وجوہات ہیں سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ زندگی گزارنے کے طریقے تبدیل ہو گئے ہیں کہ بہت زندگی گزارنے کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں جو کہ کمانے والا فرد واحد پورا نہیں کر سکتا اگر بیوی تعلیم یافتہ ہو تو اکثر اسکا شوہر اسے نوکری کرنے کی اجازت دے دیتا ہے اور اسی طرح میاں بیوی مل کر گھر کا بوجھ اٹھاتے ہیں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ خوشحال زندگی گزارنے کی تمام سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد شاہد کے مطابق دوسری اہم بات یہ ہے کہ تعلیم کے عام ہونے سے لوگوں کے نظریوں میں بھی تبدیلی آ گئی ہے اور عورتوں کو گھر سے باہر نکل کر نوکری کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تقریباً ہر ڈیپارٹمنٹ میں عورتوں کو برابر کی نمائندگی دی گئی ہے۔ کیونکہ خواتین نا صرف گھر یاخاندان بلکہ اپنے ملک کی معاشیات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔

محمد شاہد نے خواتین کے مختلف شعبوں میں کام کرنا خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک اچھی تبدیلی ہے کیونکہ خواتین پر نوکریوں کے معاملے میں پابندی لگانا ایسا ہے کہ ملک کی ترقی میں 48 فیصد خواتین کے کرادار کو روکنا ہے چونکہ نئی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواتین کی تعداد مرد کے مقابلے میں 48 فیصد ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button