ہم کب تک پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ بن کر ناچتے اور اپنا نقصان کرتے رہیں گے؟
ڈاکٹر جہان عالم
ھم ہمیشہ دوسروں کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں اور جذباتی ہیں، دوسروں کے مسائل میں بن بلائے منصف بن جاتے ہیں اور پھر دونوں فریق اپنے غم بھلا کر ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
1923 کی بات ھے جب برصغیر کے مسلمان ترکی سے میلوں دور ترکی کے ذاتی معاملات میں جس قدر دلچسپی لے رہے تھے اس قدر ہی بڑا چھرا کمال اتاترک نے چلایا اور خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا تب جا کے یہاں کے مسلمانوں کو امن راس آیا ورنہ روز روز کے مظاھرے یہاں بھی ہوتے رہے، بالکل پرائے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ والا سین تھا۔
افغان جہاد کے دوران ایک جذباتی فیصلے کی وجہ سے ھم آج تک افغان مہاجرین سے جان نہ چھڑا سکے جو اب ایک ناسور کی طرح ھم سے چمٹے ہوئے ہیں، واپس جاتے بھی نہیں اور خوش بھی نہیں ہوتے!
اسی طرح چند سال پہلے شمالی کوریا اور لیبیا کی مدد کر کے ھمارے محسن عبدالقدیر خان نے اپنے پاؤں پر کلہاڑہ مارا اور جن نالائقوں کو خان صاحب دفاعی طاقت بنانا چاہ رہے تھے انہی ندیدوں نے سارا ملبہ قدیر خان صاحب پر ڈال دیا۔
فلسطین نے تین دن پہلے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا اور پچھلے کئی ماہ سے عرب ممالک بشمول امارات، بحرین، سوڈان اور اب سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کر رہے ھٓہیں اور اس کی وجہ فلسطینی لیڈران کی ہٹ دھرمی اور انا پرستی ہے جو کسی صورت مذاکرت کی میز پر آنے کو تیار نہیں اور عسکری طور پر اسرائیل سے لڑ بھی نہیں سکتے۔
ایسا کب تک چلے گا اور کب تک فلسطینی مرتے رہیں گے اور یہ شہادتیں رائیگاں جاتی رہیں گی؟
ھندوستان ھمیشہ سے اسرائیل کو اس بات سے ڈراتا رہا ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے جو وہ اسرائیل کو مار سکتا ھے اور اس طرح ھر بار اسرائیل بھارت کو ھمارے خلاف ھتیار فراھم کرتا رہا ہے۔
اگر ھم اسرائیل سے کہیں کہ فلسطینیوں کو ایک ریاست دیں اور خود تھوڑا سکڑ جائیں اور اس بدلے فلسطین سے آپ پر حملے نہیں ہوں گے تو اسرائیل تو شاید مان جائے لیکن فلسطین کی مسلح ملیشیا جو ایران کی کٹھ پتلی ہے پھر بھی نہیں مانے گی۔
یہی وجہ ھے کہ سمجھدار دنیا نے فلسطین کے بیانیہ سے علیحدگی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ اسرائیل سے ھماری کوئی ذاتی لڑائی نہیں لیکن ھم نے عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل سے منہ موڑا اور اسے ہر بار میزائل سے مارنے کے دعوے بھی کرتے رہے۔
آج حقیقت یہ ہے کہ جنھوں نے اسرائیل سے جنگ لڑی وہ اس سے صلح کر چکے لیکن ھم ہزاروں میل دور منہ لٹکائے بیٹھے ہیں کہ ھم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔
پاکستان کو چاہیے کہ اسرائیل کو براہ راست سمجھائے کہ کچھ بنیادی فلسطینی علاقے فلسطین کو واپس کر کے بقائے باہمی کے اصولوں پر عمل پیرا ہو، فلسطین کو ازاد ریاست قرار دے دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ایران سے کہے کہ خطے میں مسلکوں اور فرقوں کی بنیاد پر مزید آگ نہ لگائے اور دنیا کا امن تباہ کرنے کی روش ترک کر دے کیونکہ ایران کا یہ چورن مزید بکنے والا نہیں، تاکہ فلسطینی مسلح ملیشیا راہ راست پر آ جائے اور فلسطینیوں کی نسل کشی بند ہو اور ایسا ہونے کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے تاکہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہو جائے۔