‘پاسپورٹ کسی اور نے بنا کے دیا اور حکومتی امداد سے میں محروم رہ گیا’
انیس ٹکر، مزمل داوڑ
مردان کا رہائشی پچاس سالہ بونیر گل بیماری کے باوجود آٹے کی چکی میں مزدوری کرتا ہے اور مستحق ہونے کے باوجود بھی احساس ایمرجنسی کیش پروگرام سے پیسے وصول نہ کرسکا۔ بونیر گل کا شکوہ ہے کہ موجودہ حالات میں وہ اس قابل نہیں ہے کہ مزدوری کرسکے لیکن اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کی وجہ سے وہ بیماری کی حالت میں بھی کام کرنے ہر مجبور ہے۔
بونیر گل نے ٹی این این کو بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک امیر آدمی نے اپنے خرچے پر انکو اورانکی بیوی کو عمرے پربھیجا تھا بس اسی وجہ سے وہ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے پیسوں سے محروم ہوگئے۔
بونیر گل کے مطابق اس کی بیوی بھی بیمار ہے اور اس کے پاس جتنے پیسے تھے وہ اس نے اس کے علاج پہ لگا دیئے، کچھ عرصہ پہلے جب احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے بارے میں سنا تو اس نے بھی اس کے لیے اپلائی کیا لیکن اس کی امیدوں پہ اس وقت پانی پھرگیا جب اس کو بتایا گیا کہ اس کے نام پہ پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے وہ یہ رقم حاصل نہیں کرسکتا۔
پاکستان میں مارچ کے مہینے میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاون نافذکردیا جس کی وجہ سے لوگ گھروں تک محصور رہ گئے، بعد ازاں حکومت نے غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے یکم اپریل 2020 کو احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کا اجرا کیا جس کے تحت ایک کروڑ بیس لاکھ گھرانوں کے لیے ایک سو چھوالیس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
نہ صرف بونیر گل بلکہ کئی ایسے مستحق گھرانے بھی احساس ایمرجنسی کیش پروگرام سے محروم رہ گئے کیونکہ انکے پرپاسپورٹ بنے ہوئے ہیں۔
اگر ایک طرف اس پروگرام سے کئی لوگوں کو فائدہ مل رہا ہے تو دوسری جانب بونیر گل کی طرح اہلیت ہونے کے باوجود اس پروگرام کے پیسوں سے کئی لوگ محروم ہوگئے ہیں جسکی وجہ سے عوام نے اس پروگرام کو کافی تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔
پاسپورٹ ہونے والوں کے علاوہ وہ لوگ بھی احساس پروگرام کے پیسوں سے محروم ہو گئے ہیں جن کے نام پر گاڑی رجسٹرڈ ہے۔ مردان سے تعلق رکھنے والی شگفتہ کا کہنا ہے کہ انکو تب پتہ چلا کہ انکے خاوند کے نام پر گاڑی رجسٹرڈ ہے جب انہیں احساس پروگرام کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔
شگفتہ کا کہنا ہے کہ میرے خاوند کے نام پر مالکان نے گاڑی رجسٹرڈ کی ہے جہاں وہ کام کرتا ہے۔ ‘ہم چھوٹے سے کرایے کے مکان میں رہ رہے ہیں نا ہمارے گھر کوئی سرکاری نوکر ہے نا ہماری کوئی جائیداد ہے، میرا خاوند جہاں کام کرتا ہے وہاں کے مالکوں نے میرے خاوند کے نام پر گاڑیاں خریدی ہیں’
شگفتہ کی طرح اور بھی بہت ساری خواتین نے احساس پروگرام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ انکے شوہر بے روزگار ہیں اور نہ ہی انکا کوئی کاروبار ہے پھر بھی انکو میسج موصول ہوا ہے کہ آپ اس پروگرام کے لئے نااہل ہو۔
‘میرا شوہر بے روزگار ہے اور ہمارا دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے ہم نے جب اپلائی کیا تو ہیمں مسیج آیا کہ آپ نااہل ہو ہم بہت غریب اور لاچار ہیں اس امید پر بیٹھے تھے کہ ہمیں پیسے مل جائے گے لیکن ایسا نہیں ہوا’ رابعہ نے بتایا۔
لیکن احساس ایمرجنسی کیش پروگرام خیبرپختونخوا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ضیا الرحمان کا کہنا ہے کہ پروگرام میں ان غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا ہے جو کورونا سے متاثر ہو گئے ہیں اور 8171 نمبر پر مسج دینے پر جواب دیا جاتا تھا اور باقاعدہ تحقیقات کے بعد مستحق خاندان کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ انہوں نےبتایا کہ تحقیقات میں اس بات کے حوالے سے چھان بین کی جاتی تھی کہ احساس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والا سرکاری ملازم تو نہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ضلع مردان میں 16 ہزار سے زیادہ لوگوں کو احساس پروگرام سے نکال دیا گیا ہے چونکہ وہ نااہل تھے۔
اہلیت رکھنے کے باوجود اس امدادی پروگرام سے محروم ہونے والے لوگوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ اس احساس پروگرام کے لئے غربت سروے دوبارہ کیا جائے تاکہ مستحقین کو اپنا حق مل سکیں۔
بعض افراد جن کو احساس ایمرجنسی کیش کی ادائیگیوں میں بائیومیٹرک تصدیق کے مسائل بھی درپیش تھے تاہم بعد ازاں صارفین کی آسانی کیلیئے ایک نیا ویب پورٹل کھولا گیا اور ان کا یہ مسئلہ حل کردیا گیا۔
اگر ایک طرف احساس ایمرجنسی کیش پروگرام میں صارفین کو شناختی کارڈز، فنگر پرنٹس، پاسپورٹس کی وجہ سے پیسے نہ ملنے اور شناختی کارڈ کے میعاد ختم ہونے کے مسائل درپیش تھے تو دوسری طرف پیسوں کی تقسیم کے لیے منتخب کئے گئے سنٹر میں بھی لوگوں کو کئی ایک مسائل درپیش تھے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اعظم داوڑ کا کہنا ہے کہ پورے شمالی وزیرستان میں احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے لئے صرف دو مراکز قائم کیے گئے تھے اور یہ کہ ان مراکز میں خواتین کے لئے علیحدہ عملہ موجود نہیں تھا ، اس لئے انکی خواتین کے لئے بہت مسائل کا سامنا کررہا تھا۔
اعظم داوڑ نے کہا کہ سنٹر میں پانی، باتھ روم اور باقی سہولیات کا بھی فقدان تھا اور بعض لوگوں سے کمیشن بھی لیا جاتا تھا۔
اعظم داوڑ کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے شمالی وزیرستان میں احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے ایک رکن عبدالرزاق نے کہا کہ مراکز میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں سب سے بڑا مسئلہ عملے کی کمی تھا لیکن پھر بھی انکی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کو بروقت پیسے دے دیں۔ انہوں نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں چونکہ انٹرنیٹ کا بہت بڑا مسئلہ ہے تو اس وجہ سے بھی انکو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
‘تیسرا مسئلہ بزرگ لوگوں کی فنگر پرنٹ کا تھا، محنت مزدوری کی وجہ سے اکثر لوگوں کے انگوٹھے خراب ہوجاتے ہیں تو اس وجہ سے انکے انگوٹھوں کے نشان نہیں لگتے تھے’ اعظم داوڑ نے کہا۔
قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے مقامی لوگوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا لیکن سماجی کارکن مصور داوڑ جیسے لوگوں نے کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس پروگرام کا حصہ بناسکے۔
انہوں نے بتایا کہ جب وزیر اعظم نے اعلان کیا تو انہوں نے گھر گھر جا کر شناختی کارڈز اکٹھے کئے اور انٹرنیٹ کے ذریعے اور آن لائن فارم جمع کئے جس کی وجہ سے کافی لوگوں اس پروگرام کا حصہ بنایا۔