"میں پاگل نہیں نفسیاتی مریضہ ہوں”
زینت خان
پشاور: جب بھی 34 سالہ شاندانہ مقامی ہسپتال میں ماہر نفسیات سے ملنے جاتی ہیں تو وہ اپنے گھر والوں کو نہیں بتاتی ہیں۔ وہ پانچ سال قبل اپنے بیٹے کو کھونے کے بعد سے ہی نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے۔
"میرے گھر والے اور شوہر مجھے کسی ماہر نفسیات سے ملنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ گاؤں کے لوگ ان کا مذاق اڑائیں گے اور یہ کہیں گے کہ میں پاگل ہوں۔”
اس ہسپتال میں جہاں شاندانہ کا علاج ہوتا ہے ، ایک اور جوان سالہ مریضہ بھی ہے جن کے نفسیاتی مسائل کو بھی شاندانہ کی طرح پورے خاندان سے چھپانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن حالت بگڑنے کی وجہ اسکی بیماری کو زیادہ عرصہ چھپا نہیں سکیں۔ اس مریضہ کی ماں نے بتایا کہ جب انکی بیٹی کی حالت خراب ہوئی تو گھر کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ اسے نوشہرہ میں کاکا صاحب کے مزار پر لے جاتے ہیں لیکن وہاں لے جانے کے بعد بھی کوئی بہتری نہیں ہوئی اور جب بچی کی حالت بہت خراب ہوئی تو تب ہم اسے ہسپتال لے آئیں۔
والدہ نے کہا ، "اب ہر ایک کو اس کی بیٹی کی ذہنی بیماری کے بارے میں علم ہے اور یہ ہمارے لئے بہت بڑی شرمندگی ہے۔ لوگ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ اس کے” کردار "میں کچھ کھوٹ ہے ، اسی لئے اسے خدا کی طرف سے اسے یہ بیماری ملی ہے ورنہ ایسی بھری جوانی میں زہنی بیماری کی کیا وجہ ہو سکتی ہے”۔ اور ایسی باتیں ہمارے لئے بہت تکلیف دہ ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق خیبر پختونخوا میں چھیالیس فیصد خواتین جبکہ پندرہ فیصد مرد نفسیاتی مسائل سے دو چار ہیں۔ اس حوالے سے پشاور کے خیبر ٹیچنگ اسپتال میں شعبہ نفسیات کے چیئرمین ڈاکٹر سید محمد سلطان کا کہنا ہے کہ معاشرے میں صنفی عدم مساوات خواتین کو نفسیاتی مسائل کا شکار بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین پدر سری نظام کی چکی میں پستی ہیں جبکہ مردوں کے بنائے گئے سخت اصولوں کے تحت اپنی زندگی بسر کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ آسکے علاوہ بچیوں کو بچپن سے ہی معاشی، معاشرتی اور صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسکا اثر انکی ذہنی صحت پر ہوتا ہے۔ "خواتین کو انکے بنیادی حقوق جیسے تعلیم اور صحت تک رسائی نہیں دی جاتی۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے خواتین نفسیاتی مشکلات سے دو چار ہو جاتی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ خواتین میں ایکس کروموسوم ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے تناؤ اور دیگر نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتی ہیں”۔
ڈاکٹر محمد سلطان کا مزید کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں خواتین کے نفسیاتی مسائل کی مزید وجوہات میں قدرتی آفات اور جنگ کی صورتحال بھی شامل ہیں۔ اس خطے میں پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈیس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کے مریضوں کی تعداد ملک کے باقی حصوں سے کافی زیادہ ہے۔ ‘ہمارے صوبے میں بڑی تعداد میں خواتین نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے جسکے صدمے سے نکلنا انکے کئے بہت مشکل ہے’۔
انکا مزید کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ "کورونا وائرس کی وباسے خواتین میں خوف اور زہنی دباؤ کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ خواتین کو ہر وقت اپنے گھر کے افراد اور بچوں کی فکر لگی رہتی ہے جسکی وجہ سے وہ نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو رہی ہیں”۔
ماہر نفسیات اور سائیکو تھراپسٹ حفصہ خان – جو کہ خیبر پختونخوا حکومت کے سائیکو سوشل سپورٹ پروگرام سے وابستہ ہیں، کہتی ہیں کہ اس صوبے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ڈپریشن ، ذہنی تناؤ اور اضطراب کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سالوں کے صنفی امتیاز اور معاشرتی تشدد ، جنسی طور پر ہراساں ہونے اورسماجی ناانصافی نفسیاتی مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ نفسیاتی بیماریوں کے بارے میں شعور کی کمی بھی ذہنی صحت کے مسائل میں اضافے کا باعث ہیں۔
حفصہ خان کا کہنا تھا کہ ، "زیادہ تر معاملات میں ، لوگ ذہنی بیماری سے منسلک شرمندگی اورمعاشرتی منفی رویوں کی وجہ سے اپنے مریضوں کو اولیاء کے مزاروں پر لے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے نفسیاتی مسا ئل کے حل کے لئے ماہر نفسیات سے رجوع نہیں کرتے کیونکہ لوگ انہیں پاگل کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ پسماندہ طبقات کے لوگ اکثر ناخواندہ ہوتے ہیں اور نفسیاتی پریشانیوں کے بارے میں کم معلومات کی وجہ سے ، وہ اس کا علاج کرنے سے کتراتے ہیں۔ لوگ زہنی دباو کو بیماری ہی نہیں سمجھتے جب انکی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جاتی ہیں تو انکا آخری آپشن ماہر نفسیات ہوتا ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونا بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے”۔
خیبرپختونخوا حکومت نے مینٹل ہیلتھ ایکٹ 2017 میں متعارف کروایا تھا ، جس سے صوبے میں ذہنی صحت سے متعلق امور سے نمٹنے کے لئے ایک کمیشن کے قیام کی تجویز دی گئی تھی۔ لیکن تاحال کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں ابھی تک
ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پختونخوا ریڈیو جو کہ محکمہ اطلاعات اور نشریات خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام کام کرتا ہے، نے ذہنی صحت کی آگاہی اور شعور اجاگر کرنے کے لئے ایک ریڈیو پروگرام بھی شروع کیا ہے۔ اس پروگرام میں ذہنی صحت سے متعلق موضوعات پر تفصیل سے بات کی جاتی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کی جانے والی مفت علاج معالجے کی سہولیات سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔
اسٹوڈیو کلینک پروگرام کے پروڈیوسر نظام الدین کا کہنا ہے، "ہمیں خیبرپختونخوا کے دور درواز علاقوں سے بہت اچھا ریسپانس ملا ہے۔ ہمارے پروگرام کی میزبانی بھی خاتون کرتی ہیں جبکہ ماہر نفسیات بھی خاتون ہیں جسکی وجہ سے خواتین بآسانی اپنے مسائل کے حوالے سے بات کرتی ہیں۔ بہت سی خواتین اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں جبکہ ہم بھی انکی شناخت ظاہر نہیں کرتے۔ زیادہ تر لڑکیوں کو غصے ، اضطراب ، افسردگی اور تناؤ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے”۔
اسٹوڈیو کلینک اپنی نوعیت کا پہلا ایسا پروگرام ہے جس میں بالخصوص زہنی مسائل کے حوالے سے نہ صرف معلومات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ ماہر نفسیات ان مسائل کا حل بھی بتاتے ہیں۔
پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں شعبہ نفسیات کے چیئرمین ڈاکٹر سید محمد سلطان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں 42 فیصد خواتین فوبیا ، نفسیاتی تناؤ ، عارضہ تناؤ اور ذہنی دباؤ جیسے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر سلطان کا کہنا تھا کہ خواتین کی حالت تشویش ناک ہے کیونکہ جب انکے پاس خواتین مریضوں کو لایا جاتا ہے تو اکثر انکے جسم پر بد ترین تشدد کے نشانات ہوتے ہیں یا پھر انکے منہ اور ناک کو جلایا گیا ہوتا ہے۔ اکثرلوگ نفسیاتی مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں لہزا وہ مریضوں کو مختلف پیروں، فقیروں اور مزاروں پر لے جاتے ہیں اور سمجتے ہیں کہ مریض پر جنات اور بدروحوں کا ااثر ہے۔
"جب مریض کی حالت بالکل غیر ہوجاتی ہے تب لوگ اسے ہمارے پاس لے آتے ہیں۔ جبکہ نفسیاتی بیماریوں کا بروقت علاج بہت ضروری ہے۔ بہت سے لوگ ہماری فائل دوسری فائلوں میں چھپا کر لاتے ہیں۔ تاکہ باہر سے دیکھنے والوں کو پتہ نہ چلے کہ وہ ماہر نفسیات کے پاس علاج کے لئے آتے ہیں”۔
ڈاکٹر سلطان کا کہنا تھا کہ ہمییں نفسیاتی مسائل کو بھی دوسری بیماریوں کی طرح سمجھنے کہ ضرورت ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب لوگوں میں نفسیاتی مسائل کے حوالے سے شعور اجاگر ہوگا۔