طورخم بارڈر بندش: "ویزے کے حصول کیلئے تین راتیں گزارنا پڑیں”
محراب آفریدی
‘کابل کے رہائشی چالیس سالہ وقاص اللہ عرصہ دراز سے گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور اس وقت پاکستان کے نجی ہسپتال میں ان کا علاج جاری ہیں تاہم ان کے مطابق کورونا وائرس اور لاک داون کے باعث ويزے نه ملنے کی وجہ سے وہ سات ماہ تک علاج کی سہولت سے محروم رہے’
رواں برس مارچ کے مہینے میں ملک بھر میں کورونا وائرس کی وبائی صورتحال کے پیش نظر جہاں ملک بھر میں لاک ڈاون نافذ کیا گیا وہاں حکومت نے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ پاک افغان بارڈر کو بھی مکمل طور پر سیل کردیا جس کے باعث وقاص اللہ اور ان جیسے سینکڑوں مریضوں کو علاج کے لئے پاکستان آنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ محنت مزدوری کی غرض سے آمدورفت کرنے والوں کیساتھ یو این ایچ سی آر کے تحت اپنے ملک واپس جانے والے سینکڑوں افغان مہاجرین کو بھی اس ضمن میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور انکی واپسی کا عمل روک گیا تھا۔
وقاص اللہ کا کہنا ہے کہ بیماری کی حالت میں انہیں ویزے کی حصول میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور مسلسل تین راتیں گزارنے کے بعد بڑی مشکل سے وہ ویزے کی حصول میں کامیاب ہوئے اور علاج کے لئے پاکستان آگئے۔
وقاص اللہ نے الزام لگایا کہ ننگرہار میں واقع پاکستانی قونصلیٹ پر بہت زیادہ رش ہوتا ہے اور ویزے کے حصول میں سفارشی لوگوں اہمیت دی جاتی ہیں۔
انہوں نے اعلی حکام سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ قونصلیٹ کے باھر خواتین اور بوڑھے حضرات بھی ویزے کی حصول کے لئے کئی دنوں سے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں لہذا ویزے کی اجرا میں آسانیاں لائی جائیں۔
واضح رہے کہ پچھلے ماہ افغانستان کے صوبے جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے نے چھ ماہ سے بند قونصلیٹ کھولا گیا تو ہزاروں افغانی باشندوں کی جم غفیر دیکھنے کو ملی جہاں پر بھگدڑ مچنے سے بشمول دس خواتین پندرہ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔
وقاص اللہ کی طرح لنڈیکوتل بازار میں پچھلے تیس سالوں سے سبزی فروخت کرنے والا ننگرہار کے رہائشی بھی لاک ڈاون کے پہلے افغانستان گئے تھے اور بارڈ کی بندش کے باعث وہ ایک ماہ تک افغانستان میں پھنس گئے۔
وہ کہتے ہیں انہیں بھی ویزے کی حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے روزگار کے لئے طورخم کے بجائے چمن کے راستے لنڈیکوتل آئے ہیں اور اپنا روزگار دوبارہ بحال کردیا ہے۔
طورخم بارڈر پر تعینات نادرا کے عملے کا کہنا ہے کہ حالیہ وقت میں روزانہ کی بنیاد پر پاسپورٹ شناختی کارڈ اور مہاجر کارڈ پر آٹھ ہزار کے قریب افراد پاکستان سے افغانستان سفر کرتے ہیں اور اسی طرح افغانستان سے پاکستان آنے والوں کی بھی لگ بھگ اتنی تعداد ہے۔
اہلکار (انہوں نے نام خفیہ رکھنے کی درخاست کی ہے) نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وبائی صورتحال کے باعث یہ تعداد کم درجے پر آگئی ہے جس کی بنیادی وجہ ویزوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے.
یاد رہے کہ کورونا وائرس او لاک ڈاون سے پہلے دونو ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے او تعلقات بہتر بنانے کیلئے پاکستان نے طورخم بارڈر کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جس سے بارڈر کی دونوں طرف سے لوگوں کی آمد ورفت جاری تھی جبکہ سامان سے لدے ٹرک بھی پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان آرہے تھے۔
بارڈر حکام کے مطابق 24 گھنٹے بارڈر کھولے جانے سے مسافروں کی تعداد میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا تھا اور پہلے 13 سے 14 ہزار لوگ دونوں جانب سے بارڈر کراس کرتے تھے لیکن بعد میں یہ تعداد 18 سے 19 ہزار تک گر گئی تھی لیکن لاک ڈاون کے باعث یہ تعداد مزید کم ہوگئی ہیں۔