سوات میں گلوکاروں اور رقصاؤں کے مشہور محلہ بنڑ کی رونقیں پھر سے بحال ہونے لگی
رفیع اللہ خان، رضوان محسود
سوات میں گلوکاروں اور رقصاؤں کی مشہور گلی بنڑ کی رونقیں بڑے عرصے بعد دوبارہ بحال ہوئی ہیں لیکن مقامی فنکار اب بھی خوف کا شکار ہیں کہ کہیں کورونا کی دوسری لہر یہ گلی پھر سے ویران نہ کردے۔
اسی گلی میں آنکھ کھولنے والی 15 سالہ حنا خان جوانی کی دہلیز پر اب قدم رکھ رہی ہے لیکن رقص کی دنیا میں وہ پیدائش کے پہلے دن سے ہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے فن میں نکھار بھی آ رہا ہے۔
عمر کی کمی کے باوجود فن میں پختگی کی وجہ حنا نے پچھلے کچھ عرصے سے رقص کو باقاعدہ پیشے کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ خوشی سے رقاصہ نہیں بنی مجبوری اور لاچاری نے اس پیشے سے منسلک کیا ہے کیونکہ گھر میں کوئی اور کمانے والا نہیں ہے۔ حنا اب اپنی 12 سالہ بہن حاجرہ کو بھی رقص کے رموز و اوقاف سکھا رہی ہیں اور اکثر اوقات دونوں نوزائیدہ بہنیں محفل میں ایک ساتھ موسیقی کے سروں میں اپنی اعضاء کی شاعری کا رنگ بکھیرتی ہیں اور تماشائیوں سے داد کے ساتھ ساتھ پیسے بھی بٹورتی ہیں۔
پچھلے چند ماہ حنا اور ان کے گھرانے پر بہت گراں گزرے ہیں، کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن نے نہ صرف فن کے دلدادوں پر بنڑ گلی کے دروازے بند کردئے تھے بلکہ شادی، خوشی کی تقریبات پر بھی پابندی کی وجہ سے حنا اور ان جیسے درجنوں فنکاروں کی روزی روٹی کا بچا کھچا زریعہ چھن گیا تھا۔
حنا کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے لاکھوں روپیہ قرض لیا ہے اور اگر لاک ڈاؤن میں مزید ایک ماہ کی توسیع بھی ہوتی تو سارا گھرانہ خدا نخواستہ بھیک مانگے سڑکوں پر نکل آتا۔
اب چونکہ لاک ڈاون ختم ہوگیا ہے اورمعمولات زندگی آہستہ آہستہ بحال ہورہی ہیں تو انہیں کافی خوشی ہے کیونکہ ہر کسی کی طرح انکا روزگار بھی بحال ہوگیا ہے اور ان کے رزق کا وسیلہ کھل گیا ہے۔
سوات موسیقی کے حوالے سے زرخیز زمین مانی جاتی ہے اور یہاں پر بہت سے نامور فنکاروں نے جنم لیا ہے جن میں نازیہ اقبال ، غزالہ جاوید اور کرن خان قابل ذکر ہیں۔
موجودہ وقت میں یہ فنکار ضلع کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں لیکن چند عشرے قبل سوات ریاست کے والی (حکمران) میاں گل عبدالحق جہانزیب نے ناچ گانے وابستہ لوگوں کو بنڑ محلے تک محدود کردیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت یہ برادری پچاس خاندانوں پر مشتمل تھی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ ہونے کی بجائے یہ تعداد کم ہوتی گئی اور اب یہ خاندان 30 کے قریب رہ گئے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان فنکاروں کی نسبتا بڑے شہروں میں منتقل ہونا ہے۔
بنڑ محلہ کی حنا اگر رقص میں اپنا کیرئر بنانے کی کوشش کر رہی ہیں تو ان کی پڑوس میں رہنے والی ان کی ہم عمرعظمیٰ فیاض نے گائیکی میں نازیہ اقبال کے مقام تک پہنچنے کو اپنا ہدف مقرر کیا ہے۔ تاہم عظمیٰ فیاض بھی ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے حوالے سے کافی تشویش میں مبتلا ہے۔ عظمیٰ کہتی ہیں کہ جب ان کا محلہ ویران ہوتا ہے تو نہ صرف معاشی تنگی آتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ان کے دل پر ایک عجیب سی حبس کی کیفیت طاری ہوتی ہیں۔ وہ یہ محلہ ہمیشہ آباد اور پر رونق دیکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرسکے اور لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیر سکے۔
ٹی این این سے لاک ڈاؤن کے حوالے سے بات کرتے کرے ہوئےعظمیٰ فیاض نے کہا ‘پہلے اپنے محلے میں محفلیں منعقد کرنے کے علاوہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بھی جاتی تھیں اور گھر کا چولھا جلتا رہا اور پھر ایک دن کورونا لاک ڈاون کی وجہ سب کچھ بند ہوا اور انکا فن بھی بری طرح متاثر ہوا’
عظمیٰ فیاض نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ اب ان کی سرگرمیاں اسی طرح بحال ہوئی ہیں جس طرح کورونا سے پہلے تھی جس پر وہ بہت خوش ہیں۔
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے سوات کی بنڑ محلہ کی طرح صوبے اور ضم اضلاع میں بھی فنکاروں پر بڑے منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔
لاک ڈاؤن کا عرصہ قبائلی اضلاع کے فنکاروں کے لئے بھی ایک بڑی آزمائش سے کم نہ تھا۔ جہاں پہلے بدامنی اور انتہاپسندی کی لہر نے اس شعبے اور اس سے وابستہ لوگوں کو امتحان میں ڈالا ہوا تھا لیکن اب امن بحال ہونے کے بعد جب انہوں نے تھوڑا سکون کا سانس لیا تو کورونا وائرس نے انہیں گھیر لیا۔
‘بد امنی کے دنوں میں دربدر تھا پہلے دہشت گردی نے موسیقی کو نقصان پہنچایا باقی رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی’ جنوبی وزیرستان کے مقامی گلوکار مقصود محسود نے ٹی این این کو بتایا
انہوں ںے کہا لاک ڈاون کی وجہ سے انتظامیہ نے کافی سخت پابندیاں لگائی تھی، کوئی کنسرٹ منعقد نہیں ہونے دیا گیا جو انکے روزی کمانے کا واحد زریعہ تھا، وہ بند ہونے کی وجہ سے انکے گھر کا چولھا ٹھنڈا پڑگیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن سے متاثرہ فنکاروں کی حکومت نے کوئی خیر خبر نہیں لی حالانکہ چاہئے تھا کہ ان کے لئے کوئی خصوصی پیکج کا اعلان کیا جاتا کیوںکہ یہ سفید پوش لوگ کسی سے مالی امداد بھی نہیں مانگ سکتے۔
شادی بیاہ پر اجتماعات اور موسیقی پر پابندی کی وجہ سے جہاں ایک طرف مقصود محسود جیسے مقامی فنکاروں کو معاشی مشکلات نے جھکڑ لیا تھا وہاں حجروں کی رونقیں بھی پھیکی پڑ گئی تھی جس کی وجہ سے پختون ثقافت بھی متاثر ہوا۔
جنوبی وزیرستان کے ملک سیف الرحمان کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران متاثر ہونے والی سرگرمیاں ابھی تک پرانے رنگ میں بحال نہیں ہوئیں۔ اب بھی حجرے پہلے کی طرح آباد نہیں ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے قبائیلی علاقوں اور خاص کر جنوبی وزیرستان کے لوگ شادی یا دیگر خوشی کے مواقعوں پر ڈھول بجاتے ہیں اور روایتی اتن کرتے ہیں لیکن کرونا کی وجہ سے وہ سلسلہ بھی رک گیا تھا جو کہ اب آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے۔
فنکار کا تعلق سوات کے رنگین اور پررونق محلہ بنڑ سے ہو یا جنوبی وزیرستان کی سنگلاخ چٹانوں سے، کورونا وبا اور لاک ڈاؤن نے سب پر ایک جیسے اثرات مرتب کئے ہیں اور یہ فنکار سماج کے ساتھ ساتھ حکومت وقت سے بھی پر شکوہ ہیں کہ آزمائش کے دنوں میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔