کیا طلباء اس سال بھی امتحان کے بغیر پروموٹ کر دیئے جائیں گے؟
شفق صبا
‘پچھلے سال صحت کی خرابی کے باعث میں زیادہ محنت نہ کرسکی تھی جس کی وجہ سے میرے نمبرز بھی زیادہ اچھے نہیں آئے تھے، رواں سال میں نے خوب محنت کی تاکہ پچھلے سال کی نسبت اس سال اچھے نمبروں سے پاس ہو کر اچھے کالج میں داخلہ لے سکوں لیکن مجھے اس وقت شدید دھچکا لگا جب حکومت نے طلباء کو بغیر امتحان کے پروموٹ کر دیا۔’
یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والی لائبہ امان کا جو اب گیارہویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ لائبہ امان نے بتایا کہ حکومت کا یہ فیصلہ سننے کے بعد بہت دل برداشتہ ہوئیں لیکن میں اپنا دوسرا سال ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ ایک سال پہلے ہی کورونا کی وجہ سے ضائع ہو چکا ہے۔
کورونا وائرس کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی اداروں کی بندش سے جہاں ایک طرف طلباء درس و تدریس سے دور ہو گئے تھے وہاں ان کے امتحانات و نتائج کے لئے حکومت کی طرف سے طے فارمولے نے بھی کئی سوالات پیدا کئے ہیں۔
پاکستان میں مارچ میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد حکومت نے تعلیمی اداروں کو بھی بند کر دیا تھا۔ بعد ازاں حکومت نے مئی کے مہینے میں وفاقی وزیر تعلیم اور صوبائی وزرائے تعلیم نے فیصلہ کیا کہ ملک بھر میں میٹرک اور انٹر کے تمام طلباء بغیر امتحان پروموٹ کئے جائیں۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ نویں اور گیارویں کے امتحانات نہیں ہوں گے اور 10ویں اور 12ویں کے طلباء کو 9ویں اور 11ویں کے نتائج پر پروموٹ کیا گیا جبکہ 40؍ فیصد مضامین میں فیل ہونے والے طلبا کو پاسنگ مارکس دیئے گئے۔
جن بچوں کے پاس نویں اور گیارویں کے رزلٹ موجود ہیں ان کو دسویں اور بارویں میں ترقی دے دی گئی ہے، یہ طلباء اگلے سال دسویں اور بارہویں کے امتحانات دیں گے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نویں جماعت کے مقابلے میں دسویں جماعت کا رزلٹ بہتر ہوتا ہے، اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ طلبا کے نمبروں میں تین فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر تعلیم نے مزید کہا کہ جو لوگ اپنے 11ویں کے نتائج سے مطمئن نہیں ہے ، دوسری کیٹگری جو کمپوزٹ امتحان دینا چاہتے تھے ، تیسری کیٹیگری وہ ہے جو چند سبجیکٹ کا امتحان دے رہے تھے جبکہ چوتھی کیٹیگری ایسی ہے جن کا 40فیصد سے بھی کم رزلٹ ہے، ان کے لئے ایک الگ سے امتحان لیا جائے گا۔
بعد ازاں حکومت نے 15 ستمبر سے تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار کھول دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کو کورونا ایس او پیز پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہیں جس میں سماجی فاصلہ، سینیٹائزر اور ماسک کااستعمال شامل ہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم نے بھی دیئے گئے ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے کئی تعلیمی اداروں کو بھی سیل کیا ہے۔
پہلے مرحلے میں نویں اور دسویں کلاسز اور کالجز اور یونیورسٹیز کو کھولا گیا، فیصلے کے تحت 23 ستمبر کو چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کلاسز جب کہ 30 ستمبر سے پرائمری کلاسز بھی شروع ہوئیں۔
ایک طرف کچھ طلباء کو بغیر امتحان کے پاس کرنے کے طریقہ کار پر اعتراض ہے تو دوسری جانب کچھ طلباء وقت نہ ہونے کا بھی گلہ کر رہے ہیں کہ پڑھائی نہیں کی تو امتحان کیسے دیں گے؟
‘کالج میں داخلہ ہو گیا تو احساس ہوا کہ میرا آدھا سال تو گزر چکا ہے جبکہ پورا کورس تھوڑے سے وقت میں ختم کرنا نا ممکن ہے، ہم پری انجنئرنگ طلبہ کے پاس وقت نا ہونے کے برابر ہے پھر بھی سکول انتظامیہ ہمیں تین دن سبق پڑھاتی ہے اور تین دن چھٹی دیتی ہے، وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہم زیادہ تعداد ایک کلاس روم میں نہیں رکھ سکتے اور ایس او پیز کا خیال رکھنا پڑے گا "یہ کہنا ہے پشاور کی رہائشی سحر بنگش کا جو فرنٹئیر کالج میں پری انجنئرنگ کی طالبہ ہیں۔
کورونا کے کیسز میں کمی کے بعد سکول تو کھل گئے لیکن طلباء کے کورس کا کیا ہو گا کیونکہ نصاب زیادہ ہے اور وقت کم؟ اس کے جواب میں خیبر پختونخوا کے ایلیمنٹری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کے ڈائریکٹر ابراہیم کا کہنا ہے کہ ہم نے بچوں کے لئے نئے ڈیجیٹلائز کورسز کا انعقاد کیا ہے جو انگلش اردو اور پشتو تینوں زبانوں میں ہے جس سے بچوں کو گھر میں پڑھنے سے بھی کوئی دقت نہیں ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ کم وقت میں زیادہ کورس ختم کرنے میں اساتذہ کو بھی آسانی ہو گی۔ اس کے علاوہ حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ اس سال تعلیمی امتحانات کو تھوڑا وقت دیں گے اور تاخیر کی وجہ بچوں کے نصاب کو مکمل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے سکولوں کو باقاعدہ ایس او پیز کے ساتھ کھولا گیا ہے اور اس میں کوشش کی گئی ہے کہ بچوں کو مکمل تحفظ دیا جائے گا اور خاص توجہ اساتذہ اور کلاس فور پر دی گئی ہے چونکہ ان کی صحت بہت ضروری ہے، انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال حالات کی وجہ سے طلباء کو بغیر امتحان کے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کیا گیا لیکن اس سے متعلق ہماری طرف سے فی الحال اگلے سال کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔
شہانہ خیام پشاور کے زرگر آباد پرائمری سکول میں پی ٹی سی کی استانی ہیں، اپنے شاگردوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے ‘لاک ڈاون سے پہلے میرے پاس کلاس دوئم کے طالبعلم تھے اور سرکاری سکولوں میں تمام وہ طلبہ ہوتے ہیں جن کے والدین زیادہ تر ان پڑھ ہوتے ہیں جن کو گھر پر پڑھانا اور پڑھائی کی طرف راغب کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لاک ڈاون کے بعد میرے کلاس روم کے بہت سے ایسے طالبعلم بھی پروموٹ ہوئے ہیں جو پروموشن کے قابل نہیں تھے جبکہ طلباء کا فیل ہونا ان کو اس بات کا احساس دلانا ہوتا ہے کہ وہ اپنی پڑھائی پر خاص توجہ دیں تاکہ اگلے سال امتحان کی تیاری اچھے طریقے سے کر سکیں جس سے بہت سے ایسے طلباء جو پڑھائی میں کمزور ہوتے ہیں تو وہ بھی پڑھنے لگتے ہیں۔’
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں کل پرائمری ہائی اینڈ ہائر سیکنڈری سکولوں کی تعداد 33500 ہے جبکہ ان سکولوں میں انرول طلبہ کی مجموعی تعداد 44 لاکھ 44 ہزار 853 ہے اور نئے ضم شدہ اضلاع میں طلباء کی تعداد 6 لاکھ 54 ہزار 331 ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں ہائر ایجوکیشن کے طلبہ تذبذب کا شکار تھے وہیں پر پرائری سکول کے چھوٹے بچے بھی خاصے متاثر ہوئے۔ "قرنطینہ میں بچوں کے پاس نا تو کوئی اکیڈیمک ایکٹیوٹی تھی اور نا ہی سکول کی طرف سے کوئی سلیبس ملا نا ہی ان کے پاس نصاب کا کورس تھا۔ میرے بچے جب سکول جاتے تو ان کی باقاعدہ ایک روٹین ہوتی تھی جو لاک ڈاون میں بہت زیادہ متاثر ہوئی، مساجد سکول بند ہونے کی وجہ سے بچوں نے صرف پب جی گیم کھیلی اور اپنا زیادہ تر وقت کارٹون دیکھنے میں صرف کیا، طلبہ کو جو یاد تھا وہ بھی بھول گئے۔” یہ کہنا ہے پشاور شہر کے علاقے شاہ قبول قالونی کی رہنے والی طالب علم طہٰ کی والدہ کا جو اول کلاس میں پڑھتا ہے۔ طہٰ کی والدہ اس کی پڑھائی کو لے کربہت پریشان ہے کہ ان کا بیٹا سب کچھ بھول گیا ہے۔
طہٰ کی والدہ سے اتفاق کرتے ہوئے استانی شہانہ خیام کا کہنا ہے کہ پریشانی اس بات کی ہے کہ کم وقت میں پورا کورس بچوں کو ختم کروانا ناممکن ہے جبکہ بچے حروف تہجی تک بھول گئے ہیں، اب ان کو زیادہ پڑھائی کی ضرورت ہے اور اساتذہ کو بھی سنجیدگی سے ان کے نصاب کو وقت پر کور کرنا ہو گا۔