بلاگز

‘کئی سکول ایسے ہیں جہاں ٹیچرز کو انگریزی زبان کا ایک لفظ تک نہیں آتا’

کلثوم شیخ

خیبر پختون خواہ کا ضلع ٹانک صوبے کا پسماندہ ترین علاقہ جانا جاتا ہے، وجوہات بنیادی ضروریات کا پورا نا ہونا ہے۔

ایسے میں تعلیمی نظام کی بات کی جائے تو سسٹم میں شدید کمزوریاں نظر آتی ہیں جن میں سب سے بڑھ کر پرائمری سکول کی سطح پر درس تدریس کا عمل ہے، حکومت کی جانب سے ایک جیسے نصاب تعلیم کی بازگشت تو سنائی دیتی ہے تاہم جو اساتذہ ٹانک اور گرد و نواح کے دیگر علاقوں میں علمی ضروریات کو پورا کرنے کے تعینات کیے گئے ہیں یا ماضی میں کیے گئے تھے کیا وہ اس قابل ہیں؟

اس سوال کا جواب علاقہ میں کوئی بھی سکول وزٹ کرنے سے فوراً مل جاتا ہے۔ اگر آپ جائیں تو بڑی شرح سکولوں کی ایسی ہو گی جس میں جو اساتذہ چاہے مستقبل قریب میں بھرتی ہوئے ہوں یا پھر ریٹائرمنٹ کی دہلیز تک پہنچنے والے ٹیچرز ہوں، ایک محتاط اندازے کے مطابق بڑی تعداد میں انتہائی نالائق اساتذہ بھرتی کئے گئے تھے یا کئے گئے ہیں۔

بھرتی کیے گئے پرانے اساتذہ کی بات کی جائے تو اداروں کی جانب سے نگرانی نا ہونے کے سبب اکثریت چند پیسوں کے عوض طویل عرصہ اپنی جگہ کسی شخص کو سکول میں لگا دیتی، اسی تناظر میں حکومت کی جانب سے 7 برس قبل مانیٹرنگ سسٹم متعارف کروایا گیا جس کی وجہ سے ایسے تمام اساتذہ کو مجبوراً سکول آنا پڑا۔ تاہم یکساں نصاب اور مانٹیرنگ جیسے اقدامات پر تو فوکس رہا ہے لیکن کیا ایسے تمام اساتذہ کا ٹیسٹ لیا گیا، کیا ریفرشنگ کورسز کروائے گئے؟

میرے اپنے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کئی سکول ایسے ہیں جہاں ٹیچرز کو انگریزی زبان کا ایک سے دوسرا لفظ تک نہیں آتا، جو متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔

حکومت ریاست کے دور دراز علاقوں میں 70 سال بعد ہی سہی کوالٹی ایجوکیشن فراہم کرنے کے لئے ایسا سسٹم لائے جہاں ایسے اساتذہ کو طلباء کا مسقبل داؤ پر لگانے کی اجازت نا دی جائے اور انہیں بہترین معلم فراہم کیے جائیں کیونکہ علاقے کا تعلیمی مستقبل ہی اس کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی جانب لے جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button