ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں کوئی گرلز ڈگری کالج ہے ہی نہیں
محراب شاہ آفریدی
نپولین بوناپاٹ نے ایک دفعہ کہا کہ میرے ملک کے لئے سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز کون سی ہے جس سے ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں۔ جواب آیا کہ ہمارے ملک کی ترقی کے لئے تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ ماں کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ملک کی خواتین تعلیم یافتہ نہ ہوں تو آدھی آبادی جہالت کے اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گی کیونکہ معاشرے کے لئے تعلیم یافتہ خواتین کی اشد ضرورت ہے۔
تعلیم نسواں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین کی حیثیت معاشرے کے لئے بدن کے لئے روح جیسی ہے۔ اگر ایک خاتون آج تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ ہو تو ان کی مثال اندھوں سے دی جائے گی کیونکہ انہیں زیست کا کوئی ڈھنگ ہی معلوم نہیں ہو گا تو بھلا وہ کیسے اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے مفید ثابت ہوں گی اس لئے آج کی دنیا فی میل ایجوکیشن پر بہت زور دے رہی ہے۔
اس سلسلے میں اگر دیکھا جائے یورپی ممالک کی فی میل ایجوکیشن کا تناسب بہ نسبت ایشیائی ممالک قدرے نہیں بلکہ بہت بہتر ہے جس میں پاکستان کی حالت زار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کیونکہ 2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں فی میل ایجوکیشن 46 فی صد ہے جو اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے لئے جس تناسب کی ضرورت ہے یہ اس سے کئی گنا کم ہے۔
اگر اسی تناظر میں لنڈی کوتل فی میل ایجوکیشن کو دیکھا جائے تو وہاں رونگٹے کھڑے ہونے والے واقعات دیکھنے کو ملیں گے۔ لنڈی کوتل ضلع خیبر کی تحصیل ہے جو پشاور سے تقریباً 38 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب کی طرف واقع ہے جہاں پر فی میل ایجوکیشن کی حالت زار اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہاں اندھیروں نے کافی عرصے تک ڈیرے ڈالنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
سکول ریکارڈ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں 76 ایسی طالبات تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے سے محروم ہو گئیں، جب انہوں نے FSc پاس کر کے آگے بڑھنے کی جنبش کی مگر بے سود کیونکہ نتیجتاً لنڈی کوتل کوئی گرلز ڈگری کالج ہے ہی نہیں جہاں پر وہ اپنی تعلی جاری رکھ سکیں اسی طرح 2016 میں کل 19 طالبات،2017 میں 13، 2018 میں 15، 2019 میں 17, جبکہ 2020 صرف اور صرف 12 طالبات تھیں جنہوں نے ایف ایس سی پاس کر کے گھروں تک ہی محدود ہو گئیں ایک طرف اگر آٹے میں نمک سے بھی کم مقدار میں فی میل ایجوکیشن کی گاڑی چل پڑی تو دوسری طرف تعلیمی سفر کی یہ گاڑی بہت جلد رک گئی جو اس سلسلے میں جب لنڈی کوتل کے ایک طالبہ سے پوچھا گیا کہ تعلیم چھوٹ جانے پر کیا تاثرات ہیں تو ماریہ رحمان نے بتایا کہ یہ تشنگی زندگی بھر محسو س ہو کر رہے گی کیونکہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے لڑکیوں کی طرح ہمارے بھی کچھ خوابے تھی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے۔
انہوں نے کہا کہ اس نے مشکل وقت میں قبائیلی سخت روایات کے باوجود بھی ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کر لی مگر اب اتنی استطاعت نہیں ہے کہ پشاور جا کر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکے کیونکہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور پشاور آنے جانے یا وہاں ٹھرنے کے اخراجات ان کی طاقت سے باہر ہے اگر یہاں ڈگری کالج ہوتا تو ہم گاوں میں ٹیوشن کر کے انہی پیسیوں کی بدولت تعلیم جاری رکھ سکتی مگر افسوس کہ ہماری اس حسرت مٹی میں مل گئی۔
محکمہ تعلیم خیبر کے مطابق ڈھائی لاکھ آباد ی پر مشتمل تحصیل لنڈی کوتل میں لڑکیوں کے لئے صرف ایک ہی ہائیرسیکنڈی سکول ہے جہاں سے ہر سال تقریبابیس لڑکیاں ایف ایس سی پاس کرکے مزید حصول تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔یہ نقصان صرف اکیلی اس طالبہ کی نہیں ہے صرف اس ایک خاندان کی نہیں ہے بلکہ اس طرح واقعات سے پورے معاشرے کو شدید نقصان لاحق ہوتے ہیں جو ناقابل تلافی سمجھے جاتے ہیں۔
گل محمد نے کہا جو پیشے کے لحاظ سے تاجر ہے ان کی بڑی بیٹی دو سال پہلے لنڈیکو تل کے گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری سکول سے فارغ ہوکر مزید پڑھائی سے محروم ہوگئی کیونکہ لنڈ ی کوتل ڈگری کالج ہے ہی نہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ علاقے میں بمشکل لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ بعض معاشرتی رویات کے بناء پر والدین کو مجبور نا اپنی بیٹی کو گھر پر ہی بٹھانا پڑتا ہے۔
گل محمد نے مزید بتایا کہ اپنی بیٹی کو ایف ایس سی تک تعلیم دلوای دی لیکن پورے علاقے میں حصول تعلیم کے انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہم پشاور یا دیگر علاقوں میں اپنی بیٹوں کو تعلیم کے لئے نہیں بھیج سکتے ہیں جس کی بنیادی وجہ غربت اور لوگوں کی باتیں ہیں جس سے ہر قبائیلی والد ڈرتا ہے اس طعنہ زنی نے بہت سے لڑکیوں کو حصول تعلیم سے محروم کر دی ہیں۔ اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ آگرڈگری کلاسز کی سہولت لنڈی کوتل میں موجود ہوتی تو ضروراپنی بیٹی کو داخل کروالیتا۔
ہائیر سیکنڈری سکول کے پرنسپل کا کہنا ہے کہ اُن کو بھی اس کا بات کاشدید دوکھ ہے کہ یہاں ایف ایس سی پاس کرنے والی لڑکیاں مزید تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتی ہیں لیکن محدود وسائل اور اداروں کی طرف سے اجازت نہ ہونے کی وجہ ان طلبہ بی ایس میں داخلہ نہیں دیاجاسکتا۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہاکہ آگر علاقے کے عوامی نمائندگان اس سلسلے میں کوشش کریں تو ہم اپنے موجودہ سٹاف سے بھی اس سلسلے میں مدد حاصل کرکے ان کے پڑھائی کا انتظام کرسکتے ہیں۔
تحصیل لنڈی کوتل کے یسرا ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر ان کو کیا پتہ کہ کالج کی عدم موجودگی ان کی تعلیم کو اڑے دے گی انہوں نے کہا کہ گھر کے مالی مسائل اور علاقے میں اعلی ادارے کانہ ہونے کی وجہ سے اُن کا یہ خواب ادھورہ ہی رہ گیا جس پر صرف افسوس ہی نہیں بلکہ انتہائی گہرا دکھ پہنچا۔ اُنہوں نے بارھویں جماعت تک ایسی حالت میں تعلیم حاصل کی کہ اُن کے والد منشات رکھنے کے الزام میں پچھلے کئی سالوں سے جیل میں قید ہے، ماں دل کے عرضہ میں متبلا ہے بڑا بھائی اُن کے ادویات اور گھر کا خرچہ بمشکل سے ہی پورا کرتاہے۔ یسرا کے بقول اُنہوں نے اپنے بہتر مستقبل کے لئے جو سوچا تھا وہ پورا ممکن دیکھا ئی نہیں دیں رہا ہے۔
قبائلی اضلاع سے ممبر صوبائی اسمبلی الحاج شفیق شیر آفریدی کا تعلق ضلع خیبر کی تحصیل جمرود سے ہے، اُنہوں نے لڑکیوں کے اعلی کے سہولیات کے فقدان کے حوالے سے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں قبائیلی اضلاع میں خواتین کے تعلیم کے لئے سہولیات نہ ہونے برابر ہے اور اس وجہ سے علاقے خواتین ترقی کے دوڑ میں کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ اُنہوں نے علاقے میں خواتین کے تعلیم کے حصول میں حائل روکاٹوں کو دورکرنے کے لئے کوششیں جاری ہے اور جلد اس سلسلے میں علاقے کے عوام کو خوشخبری سنائیں گے۔