قبائلی ضلع خیبر میں مسیحی برادری کو گھر خالی کرانے کا نوٹس
خالدہ نیاز
ضلع خیبرکی تحصیل لنڈی کوتل میں جیل انتظامیہ نے مسیحی برادری کو6 گھرخالی کرنے کا نوٹس جاری کیا ہے جس کی وجہ سے ان میں بے چینی پھیل گئی ہے۔
ضلع خیبرمیں مسیحی کمیونٹی کے چیئرمین اور پاکستان مائنارٹی الائنس سنٹر ممبر ارشد مسیح کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کرسچن کمیونٹی کے یہ لوگ 1914 سے یہاں لنڈی کوتل میں رہائش پذیر ہے، اب اچانک ان کو نوٹس ملا ہے کہ تحصیل کمپاونڈ میں موجود گھر خالی کردے جس کی وجہ سے ان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ ان کے پاس رہنے کا کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ غریب ہے اور نہیں کرسکتے کہ فوری طور پراپنے لئے کسی دوسری جگہ گھر بنائے۔ ارشد مسیح نے مطالبہ کیا کہ ان پانچ چھ گھروں کے مکینوں کے لیے کسی دوسری جگہ گھروں کا بندوبست کیا جائے یا ان کو مہلت دی جائے تاکہ یہ اپنے لئے بندوبست کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ گھر سرکاری زمین پربنے ہوئے ہیں لیکن اب جیل سپرنٹنڈنٹ نے ان گھروں کے مکینوں کو ہدایات جاری کی ہے کہ گھروں کو فوری طور پر خالی کردے۔ گھروں کے مکینوں نے حکومت اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ یا تو اس نوٹس کو واپس لیا جائے اور یا ان کو متبادل جگہ دی جائے تاکہ وہ وہاں اپنی زندگی گزارسکیں۔
ارشد مسیح اور مختیار عالم نے گزشتہ روز پیرکو لنڈی کوتل میں پریس کانفرنس بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کرسچن کمیونٹی کے گھروں کو مسمار کرنا ظلم ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحصیل کمپاؤنڈ میں جیل کے احاطے میں قائم ان کے گھروں کو مسمار کرنے سے وہ دربدر ہونگے مختصر نوٹس پر ان کو گھر خالی کرنا کہاں کا انصاف ہے کوئی متبادل جگہ بھی نہیں دی گئی ہے, ہماری خواتین اور بچے بے گھر ہو کر کہاں جائیں گے؟
پریس کانفرنس میں ان کے ساتھ مسیحی خواتین بھی شریک تھی۔ انہوں نے کہا کہ جیل میں توسیع کے منصوبے کو اس وقت تک موخر کر دیا جائے جب تک ان کو متبادل جگہیں نہیں دی، حکومت کو چاہئے تھا کہ ایک سال پہلے بتا دیتی اور اگر ہمارے جائز مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا گیا تو خواتین اور بچوں سمیت سڑکوں پر آکر احتجاج کرینگے۔ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ فی الحال چھ گھروں کو مسمار کرنے کا حکومت کا پروگرام ہے جس میں تیس خاندان کے افراد رہائش پذیر ہیں, لنڈیکوتل بازار یونین کے صدر جعفر شینواری نے کہا کہ کرسچن کمیونٹی لنڈیکوتل کو بے گھر نہیں کرنا چاہیے اور ان کو متبادل گھر دیئے جائیں۔
دوسری جانب سب جیل لنڈی کوتل کے سپرنٹنڈنٹ عبد الصمد خان نے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے کئی بار مسیحی برادری کے ان افراد کو گھر خالی کرنے کے نوٹسز جاری کئے لیکن پھر بھی گھر خالی نہ ہوئے جس کی وجہ سے جیل میں تعمیراتی کام گزشتہ چھ ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔
عبد الصمد خان کے مطابق جہاں کرسچن کمیونٹی کے گھرہے یہ زمین سرکاری ملکیت ہے جبکہ ان کے لیے متبادل گھروں کا بندوبست کرنا ان کے محکموں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی جی خالد عباسی نے ایک مہینہ پہلے لنڈی کوتل کا وزٹ کیا تھا جس کے دوران کرسچن کمیونٹی نے 10 دن کی مہلت مانگی تھی کہ خود ہی گھروں کو خالی کردیں گے لیکن پھربھی خالی نہیں کئے جس کے بعد انہوں نے انکو 15 دن کا نوٹس جاری کیا لیکن اس کے باوجود بھی گھروں کو خالی نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ 10 دن پہلے بھی کرسچن کمیونٹی کے لوگوں کو ایک اور نوٹس جاری کیا ہے کہ گھروں کو خالی کردے لیکن ابھی تک خالی نہ ہوسکے۔
عبد الصمد خان نے بتایا کہ جیل میں باونڈری وال کے ساتھ رہائشی پلاٹس بھی بنائے جارہے ہیں جن میں ایک جیل سپرنٹنڈنٹ کو، ایک ڈاکٹر کو، دو خواتین کانسٹیبل کو جبکہ دو پلاٹس کرسچن کمیونٹی کے لوگوں کو دیئے جائیں گے اور ساتھ کرسچن کمیونٹی کے چند افراد کو نوکریاں بھی دی جائے گی۔