پاکستان میں کورونا یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں کمزور کیوں؟
سلمی جہانگیر
چین اور یورپی ممالک میں کورونا متاثرین کے برعکس پاکستان میں اس وائرس سے متاثرہ افراد میں پھیپھڑوں اور نظام تنفس کے زیادہ مسائل سامنے نہیں آتے بلکہ یہاں زیادہ تر مریضوں میں جے آئی (معدہ اور آنت سے متعلق) علامات ظاہر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں دست اور قے کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس بہت کم مریضوں کے پھیپھڑوں اور تظام تنفس پر حملہ آور ہوتا ہے اور یہاں کم اموات کی شائد یہی ایک وجہ ہے۔
یہ کہنا ہے ڈاکٹر احمد رحمان کا جو کہ حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کے لئے مخصوص وارڈ میں تعینات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شروع دنوں میں دوسرے ممالک کی بہ نسبت پاکستان میں اس وائرس کا پھیلاؤ بھی کافی سست رہا جس کی وجہ سے ایسا سمجھا جانے لگا کہ یہاں زیادہ لوگوں کو متاثر نہیں کرے گا لیکن بعد میں یہ تمام خیالات اور مفروضے غلط ثابت ہو گئے اور اب پاکستان کورونا سے زیادہ متاثرہ 15 ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کے باوجود اموات کی شرح امریکہ اور دوسرے کئی ترقی یافتہ ممالک سے کم ہے جس کی بڑی وجہ علامات میں تبدیلی یا فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویسے تو موسم کا وائرس پر کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن اس کی وجہ سے چند ایک علامات پر اثر ضرور ہوتا ہے اور ایسا کورونا وائرس کے ساتھ بھی ہے۔ گرمی کی وجہ سے وائرس کی ساخت یا پھیلاؤ پر تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن موسم گرم ہونے کی وجہ سے اس سے متاثر ہونے والے پھیپھڑوں اور نظام تنفس پر اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا سرد موسم میں ہوتا ہے۔
امریکہ، اٹلی، سپین، برطانیہ میں اس وائرس سے زیادہ تباہی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہاں زیادہ سرد موسم میں یہ پھیلا اور امراض قلب، پھیپھڑوں اور نظام تنفس کے مریض اس کے لئے آسان شکار ثابت ہوئے۔
ڈاکٹر نے کہا پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں شدت چونکہ قدرے گرم موسم میں آئی اس لئے ایسے مریضوں کو متاثر کیا لیکن اتنی تعداد میں نہیں جتنا دوسرے ممالک میں کیا تھا۔
یورپ اور امریکہ کے ساتھ تقابلی جائزہ
پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک میں بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس سے اموات کی شرح ان خدشات سے کافی کم ہے جو ماہرین نے ان ممالک کی غربت اور کمزور نظام صحت کی وجہ سے ظاہر کئے تھے۔
مئی میں لانسٹ انٹرنیشنل میڈیکل جرنل کی ایک تحقیق کے مطابق کورونا سے مرنے والے 90 فیصد لوگوں کا تعلق دنیا کے امیر ترین ممالک سے ہے اور اگر چین، برازیل اور ایران ان کے ساتھ ملائے جائیں تو یہ شرح 96 فیصد تک پہنچتی ہے۔
جون کے اختتام تک دنیا بھر میں کورونا کے مثبت کیسز کی تعداد ایک کروڑ جبکہ اس کے نتیجے میں اموات 5 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہیں جو کہ 5 فیصد بنتی ہے۔
اگر مختلف ممالک کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اموات کی سب سے زیادہ شرح اٹلی اور برطانیہ کی ہے جہاں مثبت آنے والے ہر 100 میں سے 14 لوگ مر رہے ہیں، اسی طرح سپین میں یہ شرح 11 اور امریکہ میں 5 فیصد سے تھوڑا زیادہ ہے۔
اس کے مقابلے میں کمزور نظام صحت والے ایشیائی ممالک میں یہ شرح کافی کم دکھائی دیتی ہے جہاں پاکستان اور افغانستان میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی شرح 2 سے ڈھائی فیصد، انڈیا میں 3 فیصد جبکہ سری لنکا میں صفر اعشاریہ 5 اور بھوٹان میں صفر ہے۔
پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا جب کراچی میں ایران سے واپس آنے والے ایک طالب علم میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی اور اب تک اس سے متاثرہ افراد 2 لاکھ 10 ہزار اور اموات 4 ہزار 3 سے تجاوز کر گئی ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ کیسز اور اموات امریکہ سے رپورٹ ہوئی ہیں جہاں کیسز 25 لاکھ اور اموات 1 لاکھ 25 ہزار تک پہنچ گئی ہیں۔
امریکہ میں کورونا وائرس سے پہلا متاثر شخص 20 جنوری 2020ء میں سامنے آیا جب 35 سال کا ایک نوجوان 15 جنوری کو چین کے شہر ووہان سے لوٹا تھا جس کے بعد امریکہ میں طبی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا اور چین سے آنے والے مسافروں پر پابندی لگا دی گئی۔
امریکہ میں مارچ تک بہت کم تعداد میں کیسز رپورٹ ہوتے رہے لیکن مارچ میں مثبت کیسز اور اموات میں کچھ تیزی دیکھی گئی جہاں 31 مارچ تک مصدقہ کیسز 1 لاکھ 40 ہزار اور اموات ڈھائی ہزار تک پہنچ گئی تھیں۔ اس کے بعد اپریل کا مہینہ امریکہ کے لئے اور بھی ہولناک ثابت ہوا اور مہینے کے آخر تک کورونا کیسز 10 لاکھ سے اور اموات 27 ہزار 700 سے تجاوز کرگئی تھیں۔
امریکہ میں اس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ اس وباء کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا اور کسیز اور اموات بڑھتی گئیں جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں یہ وائرس اتنی تیزی سے نہیں پھیلا اور نہ ہی کمزور نظام صحت کے باوجود اس سے اموات کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔
پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں کورونا کے کم پھیلاؤ اور اموات کی وجوہات:
کمزور ٹسٹنگ نظام
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ان کے ملک میں زیادہ کیسز سامنے آنے کی واحد وجہ وہاں زیادہ ٹیسٹ ہونا ہے۔ امریکہ میں اب تک 2 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد کے ٹیسٹ کرائے جا چکے ہیں جن میں سے 10 فیصد مثبت آئے ہیں۔ اسی طرح یورپی ممالک میں بھی ٹیسٹنگ کا نظام پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک کی بہ نسبت کافی وسیع ہے۔
ڈاکٹر احمد، جو پچھلے 4 مہینوں سے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کورونا مریضوں کو دیکھ رہے ہیں، نے پاکستان اور خاص کر خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس کے اعداد و شمار کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں کورونا کیسز حکومت کی جانب سے تصدیق شدہ کیسز سے کئی گنا زیادہ ہو سکتے ہیں لیکن مختلف وجوہات پر یہ کیسز سامنے نہیں آتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر کورونا کی علامات 80 فیصد مریضوں میں ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔ اب جو ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں تو علامات والوں کے علاوہ رینڈم ٹیسٹ بھی بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں لیکن یہاں وہ لوگ بھی بہت ہی کم اپنے ٹیسٹ کرواتے ہیں جن میں علامات بھی ظاہر ہوں، بغیر علامات والوں کے ٹیسٹ ہونا تو دور کی بات ہے۔
ڈاکٹر احمد نے یہ بھی کہا کہ حکومت کی جانب سے بھی بہت کم ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور شائد یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ یہاں مثبت کیسز توقعات کے برعکس بہت کم ہیں۔ انہوں نے دیگر ایشیائی ممالک میں بھی اس حکومتی کمزوری کو کم کیسز کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔
پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے مطابق پاکستان میں اب تک ساڑھے 12 لاکھ سے زائد کورونا ٹیسٹ ہوئے ہیں جن میں دس سے گیارہ فیصد تک لوگوں میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر احمد کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اور امریکہ میں کئے گئے ٹیسٹ میں سے مثبت کیسز کی شرح ایک جیسی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وائرس دونوں ممالک سمیت تمام دنیا میں ایک جیسا پھیلا ہوا ہے اور ہر اس ملک میں زیادہ کیسز سامنے آئیں گے جہاں زیادہ ٹیسٹ ہوں گے۔
پاکستان میں اب تک کم ٹیسٹ کی وجہ باہر ممالک کی ٹیسٹ کٹس پر انحصار کرنا تھا جبکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے گزشتہ دنوں ملک میں تیار کردہ پہلی کٹ کی منظوری کے بعد اب امید کی جا رہی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ٹیسٹنگ کی تعداد میں اضافہ ہو سکے گا۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا کہ یہ کٹ نیشنل یونیورسٹی فار سائنس و ٹیکنالوجی (نسٹ) نے تیار کیا اور اس سے کورونا ٹیسٹنگ پر ہونے والے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔
پاکستان میں موجودہ وقت میں روزانہ کی بنیاد پر ٹیسٹ کی تعداد 30 ہزار تک بڑھائی جا چکی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اس استعداد کو 40 ہزار تک بڑھایا جائے گا۔
عالمی ادارے صحت بھی یہ کہہ چکا ہے کہ بعض ممالک میں کم کیسز رپورٹ ہونا کئی عناصر کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ہے کہ متاثرہ افراد کے کتنے ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور ان کا شمار کیسے کیا جا رہا ہے؟
عوام کی جانب سے ٹیسٹنگ سے گریز
پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس سے جڑی افواہوں اور ممکنہ ‘معاشرتی بدنامی’ بھی لوگوں کو اپنے ٹیسٹ کروانے سے روکتی ہے۔
ڈاکٹر احمد کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کورونا سٹگماٹائزڈ ہو گیا ہے یعنی اس مرض میں مبتلا ہونا اب ایک طرح سے معاشرتی بدنامی بن چکی ہے جس کی وجہ سے کچھ افراد میں اگر علامات ظاہر ہو بھی جائیں تو وہ اپنا ٹیسٹ نہیں کرواتے اور خود ہی دوائی لینی شروع کر لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے افراد میں بعض خود کو گھر میں آئسولیٹ تو کر لیتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آئسولیٹ نہیں ہوتے اور اس وائرس کو مسلسل پھیلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
مرض اور اموات چھپانا
خیبر پختونخوا میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ایک عہدیدار نے بھی ڈاکٹر احمد رحمان کے موقف کی تائید کی کہ پاکستان کورونا کیسز سامنے آنے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں لیکن ساتھ میں انہوں نے ڈاکٹر احمد کی اس بات سے اختلاف بھی کیا کہ پاکستان میں کورونا سے اموات کی شرح کم ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے کہا کہ پاکستان میں اور خاص کر خیبر پختونخوا میں زیادہ تر لوگوں کی اموات گھروں میں ہوتی ہیں جن کا کوئی ڈیتھ سرٹیفیکیٹ ہوتا ہی نہیں اور نہ ہی بیماری کے حوالے سے کوئی ریکارڈ جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ مریض کس بیماری سے مر گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے پاکستان میں کچھ عرصے سے اموات کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ کورونا ہی ہو۔ لوگ ہسپتال جانے سے کتراتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ اس وائرس سے متاثرہ کچھ لوگوں کی گھروں میں ہی اموات ہو رہی ہوں۔
ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے کہا چونکہ اس وائرس سے مرنے والوں کی روایتی طریقے سے تدفین اور رسم قل بھی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے لوگ اپنے سیریس مریض بھی ہسپتال لے جانے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں خدا نخواستہ ہسپتال میں موت ہو جائے تو کوئی جنازہ اور فاتحہ کے لئے بھی نہیں آئے گا۔
دوسری جانب کورونا وائرس صورتحال کے لئے وزیراعظم کے فوکل پرسن ڈاکٹر فیصل سلطان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے کورونا سے متعلق اموات کی جانچ پڑتال کے لئے بہت ہی موثر راستہ اختیار کیا اور بہت مشکل سے ہی ایسے کیسز حکومت کی آنکھ سے چھپ سکیں گے۔
انٹرنیشنل میڈیا ادارے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کراچی میں قبرستانوں کے سروے سے اندازہ ہوا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اموات میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔
ڈاکٹر احمد کے مطابق کورونا مریضوں کے ہسپتال نہ آنے کی ایک بڑی وجہ ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان بھی ہے۔
کیا ایشیائی لوگوں کی قوت مدافعت واقعی مضبوط ہے؟
حیات میڈیکل کمپلکس کے ڈاکٹر احمد رحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت زیادہ تر ایشیائی لوگ آلودہ ماحول کی وجہ سے مخلتف بیماریوں اور خطرناک قسم کے انفیکشنز سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف ان کی قوت مدافعت صحت کے مسائل سے دور ممالک کے عوام کی بہ نسبت زیادہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہاں 18 ماہ تک پہنچنے سے پہلے ہر بچے کو 13 مختلف قسم کی بیماریوں کے ویکسین بھی باقاعدگی سے دیئے جاتے ہیں، ممکن ہے یہ بھی مضبوط قوت مدافعت کی ایک وجہ ہو۔ یہ تمام مفروضے ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہو۔
وائرس کی ساخت میں تبدیلی
ڈاکٹر احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو وائرس ہے وہ اس طرح نہیں ہے جو چین میں تھا یا جس طرح یورپ اور امریکہ میں ہے، یہاں وائرس روٹیٹ ہو گیا ہے یعنی اس کی ساخت میں تبدیلی آ گئی ہے اور یہ واحد وائرس نہیں ہے جس کے ساتھ ایسا ہوا ہے، تقریباً ہر وائرس کی ساخت مختلف علاقوں میں مختلف ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں وائرس کے کم مہلک ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ابھی تک تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہو سکا ہے۔
کیا پاکستان میں وائرس مزید تباہی پھیلا سکتا ہے
عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وائرس آج بھی مہلک ہے اور دنیا میں کمزور صحت والے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو اس وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس لیے عالمی سطح پر تاحال انتہائی حد تک محتاط رویے اور حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) خیبر پختونخوا کے عہدیدار نے کہا کہ کورونا وائرس کس حد تک خطرناک ہے یا نہیں یہ قبل از وقت ہو گا۔
صحت کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جولائی اور اگست کے مہینے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے خطرناک ہو سکتے ہیں لیکن ساتھ میں یہ بھی امید باندھی جا رہی ہے کہ ستمبر تک اس وائرس کی ویکسین بن جائے تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کے پھیلاؤ اور ہولناکی میں واضح کمی دیکھنے کو ملے گی۔