قبائلی اضلاع میں نئے ریڈیو چینلز غیر ملکی میڈیا کا حصار توڑ سکیں گے؟
خالدہ نیاز
حکومت نے قبائلی اضلاع میں پانچ ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد حکام کے مطابق قبائلی عوام کو آزاد معلومات دینا اور ان علاقوں میں عوام کا غیرملکی ریڈیوز پرانحصار کم یا ختم کرنا ہے. دوسری جانب بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے زیر اثر ریڈیو چینلز کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ غیرملکی ریڈیو چینلز کا مقابلہ کرسکیں اور لوگوں کی درکار معلومات کا پیاس بجھاسکیں۔
ڈی جی انفارمیشن خیبرپختونخوا امداد اللہ کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں ایف ایم ریڈیو چینلزکھولنے کا مقصد ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو ختم کرنا ہے کیونکہ ریڈیو سٹینشز کے فعال ہونے سے مقامی لوگوں کا غیرملکی ریڈیو چینلز پرانحصار کم ہوجائے گا کیونکہ اس سے انکی تمام ضروریات پوری ہوا کرے گی اس کے علاوہ یہ حکومت کے انڈرہونگے تو اس سے جو بھی نشرہوگا وہ مستند ہوگا اور زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں ریڈیوز کوسنا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں زرایع ابلاغ کی کم یا غیرموجودگی کی وجہ سے مقامی لوگ غیرملکی ریڈیوز کے زیر اثر آگئے ہیں، حکومت کی کوشش ہے قبائلی اضلاع میں ٹی وی اور اخبار کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی رسم و رواج کے مطابق مقامی مسائل کو اجاگرکرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے باقی اضلاع میں سرکاری ایف ایم ریڈیو سٹیشنز موجود ہیں اور اب قبائلی اضلاع میں بھی بن رہے ہیں۔ ڈائریکٹرجنرل انفارمیشن خیبرپختونخوا امداد اللہ کے مطابق قبائلی اضلاع میں بننے والے ان ریڈیو سٹیشنز کی تعداد پانچ ہے اور یہ کرم، باجوڑ، مومند، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بنائے جارہے ہیں۔
لیکن دوسری جانب تجزیہ کار اور صحافیوں کی استعداد بڑھانے کے لئے کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے انٹرنیوز میں ایشیا کے لیے پروگرام ایڈوائزر اسد جان کا کہنا ہے کہ بہت مشکل ہوگا کہ یہ ریڈیو سٹیشنز غیرملکی ریڈیوز سے مقابلہ کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں بننے والے ریڈیو سٹیشنزقبائلی عوام کی ضروریات کو پورا نہیں کرپائے گا جس کی مختلف وجوہات ہیں ایک تو یہ ہے کہ اس سے پہلے صوبائی حکومت کے زیرنگرانی جتنے بھی ریڈیو چینلز ہیں وہاں تعینات عملہ بہت ہی کم ہوتا ہے جو عملہ ہوتا ہے وہ بھی غیرتربیت یافتہ ہے، ان کو کسی قسم کی کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں وہاں جو غیر ملکی چینلز سنے جاتے ہیں ان کا عملہ نہایت ہی تربیت یافتہ ہوتا ہے خصوصی طور پر صحافت میں ان کا بہت تجربہ ہوتا ہے۔
اسد جان نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں پہلے سے ڈیوا اور مشال جیسے ریڈیوز موجود ہیں جن کے پاس اعلیٰ معیار کا سامان موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس ہرجگہ سے رپورٹرز اور تریبت یافتہ عملہ بھی موجود ہے تو کیسے یہ غیرتربیت یافتہ عملہ ان سے مقابلہ کرسکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر لوگ ڈیوا اور مشال کو سنتے ہیں تو اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حقیقی مسائل کو اجاگرکرتے ہیں تو ضروری ہے کہ یہ ریڈیو سٹیشنز بھی عوامی مسائل کو صحیح انداز میں پیش کرے، انکی آواز بنے۔ ‘آجکل اگر دیکھا جائے تو قبائلی طلباء کو انٹرنیٹ اور فورجی کی عدم دستیابی کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے تو ان ریڈیوز نے ایسے ہی مسائل کو اجاگرکرکے اپنا مقام پیدا کرنا ہے’
اسد جان کے مطابق ‘ جب انٹرنیوز نے قبائلی اضلاع میں ریڈیو سٹیشنز کے سیٹ اپ کھولے تھے تو وہاں پرکام کرنے والے عملے کو غیرملکی ٹرینرز سے تریبت دلوائی تھی، اس کے علاوہ جو بھی سامان مہیاگیا تھا وہ اعلیٰ معیار کا تھا تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ان ریڈیو سٹیشنز میں کام کرنے والے افراد کو حکومت پہلے ریڈیو کے معیار کے مطابق تربیت دے اور پھر ان سے پروگرام کروائے’
اسد جان نے یہ بھی کہا کہ قبائلی اضلاع میں ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کا قیام وقت کی ضرورت ہے تاہم ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہاں ریڈیو سٹیشنزکی ٹرانسمیشن کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے کسی کا ایک گھنٹہ تو کسی کا دو گھنٹے کبھی بجلی نہیں ہوتی تو نشریات کا دورانیہ بڑھانا چاہیے اور جوبھی مسائل ہیں تکنیکی اس کو حل کرنا چاہیئے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ سرکاری ریڈیوز پر جو مواد چلایا جاتا ہے وہ زیادہ تر انٹرٹینمنٹ ہوتا ہے جبکہ ان علاقوں کے لوگ زیادہ تر کرنٹ افئیرز پروگرامات سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان 5 ریڈیو سٹیشنز میں سے پہلے ریڈیو چینل نے باجوڑ میں آزمائشی بنیادوں پرنشریات کا آغاز بھی کیا ہے لیکن اس کی نشریات صرف ایک گھنٹے تک محدود ہے۔
ضلع باجوڑ کے علاقے ناوگئی سے تعلق رکھنے والے مولانا خانزیب نے بھی اسد جان سے اتفاق کرتے ہوئے بتایا کہ قبائلی عوام غیرملکی ریڈیوز پر اس لیے انحصارکرتے ہیں کیونکہ وہ آزاد رپورٹنگ کرتے ہیں۔
‘ ہمارے علاقوں میں مجھ سمیت زیادہ تر افراد پچھلے کئی سالوں سے ڈیوا ریڈیو اور باقی غیرملکی ریڈیوز کو سنتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انکے پروگرام غیرجانبدار اور آزاد ہوتے ہیں اور جو بھی علاقائی اور سماجی مسائل ہوتے ہیں اس حوالے سے وہ زمینی حقائق کو دیکھ کررپورٹنگ کرتے ہیں’ مولانا خانزیب نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ باجوڑ میں جو نیا ریڈیو سٹیشن کھلا ہے وہ مقامی ریڈیو سٹیشز سے ہٹ کرہوگا اور اور آزاد پروگرام مرتب کرکے سامعین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائے گا۔
قبائلی علاقوں میں پہلے سے بھی ریڈیو سٹیشن موجود ہے جس کو لوگ شوق سے سنتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک ریڈیو میرانشاہ بھی ہے جو 2014 سے نشریات چلارہا ہے اور اسکی نشریات روزانہ 7 گھنٹے ہوتی ہے۔ مقامی لوگ میرانشاہ ریڈیو شوق سے سنتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ نئے ریڈیو سٹیشن میں تعلیم اور صحت کے موضوعات پربھی خصوصی پروگرام ہونے چاہیئے۔
‘ شمالی وزیرستان میں بدامنی کی وجہ سے تعلیم کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے تو نئے ریڈیو سٹیشن میں تعلیم سے متعلق زیادہ سے زیادہ پروگرام ہونے چاہئے تاکہ طالبعلموں کو اس سے فائدہ پہنچ سکے۔ ‘ تعلیم سے متعلق پروگرامز میں ماہرین کو بلانا چاہیے جو تعلیم کی اہمیت پربات کریں تاکہ شمالی وزیرستان کے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوسکیں اور وہ اپنے بچوں کی تعلیم پرخصوصی توجہ دینا شروع کردے’ ذاکر اللہ نے بتایا۔
شمالی وزیرستان کے علاقے ہمزونی سے تعلق رکھنے والے ذاکر اللہ کا کہنا ہے کہ ہمارے علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے، مواصلات کے باقی بھی خاص ذرائع نہیں ہے اور معلومات کے لیے واحد ذریعہ میرانشاہ ریڈیو ہے جس کو بچے، بوڑھے اور جوان سب ہی شوق سے سنتے ہیں۔ ایم اے انگلش کرنے والے ذاکر نے کہا کہ ریڈیو پرمختلف قسم کے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جس سے سب ہی لطف اٹھاتے ہیں اور معلومات بھی حاصل کرتے ہیں’
ذاکر اللہ نے کہا کہ وہ خود جب بھی فارغ ہوتے ہیں تو میرانشاہ ریڈیو کو سنتے ہیں اور دنیا اور ملکی حالات سے خود کو باخبررکھتے ہیں جہاں پر انٹرٹینمینٹ سے لےکر نیوز تک سب پروگرام نشرکئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیا ریڈیو سٹیشن بننے پر وہ بہت خوش ہے کیونکہ ان کے علاقے میں ایک سے دو ریڈیو سٹیشنز ہوجائیں گے اور مختلف قسم کے پروگرام سننے کو ملیں گے۔
ضلع مومند سے تعلق رکھنے والی سوشل ورکر اور سابقہ ڈسٹرکٹ ممبر عائشہ حسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ریڈیو سٹیشنز غیرملکی ریڈیوز کا مقابلہ تو نہ کرسکے لیکن مقامی لوگوں کے مسائل کو حقیقی معنوں میں اجاگرکرکے انکی آواز ضرور بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریڈیو معلومات پہنچانے کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو پہاڑی علاقوں میں بھی غرض ہرجگہ سنا جاسکتا ہے تو قبائلی اضلاع اور خاص طور پرمومند ضلع میں ریڈیو سٹیشن کا بننا بہت خوش آئندہ ہے۔ ‘ہمارے مومند ضلع میں اکثرعلاقوں میں ٹی وی اور کیبل کی سہولت نہیں ہے، بجلی نہیں ہے تو ٹی وی اور کیبل کہاں سے آئیں گے تو مومند ضلع میں ریڈیو سٹیشن معلومات فراہم کرنے میں اہم کردار اداکرسکتا ہے’ عائشہ مومند نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ ضلع مومند میں لوگوں میں تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے شعور کی بہت کمی ہے اگرچہ اب کچھ لڑکوں کی تعلیم پرتوجہ دے رہے لیکن لڑکیوں کی تعلیم پراب بھی کوئی توجہ نہیں دے رہا تو اس ریڈیو سٹیشن کو چاہیئے کہ ایسے پروگرام ترتیب دے جو تعلیم کی اہمیت پربات کرے ایسی خواتین کو بلایا جائے جنہوں نے اپنی فیلڈ میں نام کمایا ہو تاکہ خواتین میں شعور آسکے کہ اگریہ خاتون اتنا آگے جاسکتی ہے تو میں بھی جاسکتی ہوں۔
‘اس ریڈیو سٹیشن میں خواتین کے لیے خصوصی پروگرام ہونے چاہیئے تاکہ وہ اپنے بنیادی حقوق سے آگاہ ہوسکیں، آپ یقین مانئے وہاں کی خواتین کو ابھی تک یہ بھی نہیں پتہ کہ ہمارے ملک کے وزیراعظم کا نام کیا ہے؟ اس کے علاوہ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے بھی پروگرام ہونے چاہئے تاکہ خواتین تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہوسکیں اور تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دے، ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے بھی پروگرام ہونے چاہیئے کیونکہ وہ ووٹ کی اہمیت سے باخبرنہیں ہے اور ڈالتی بھی نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ صحت کے حوالے سے بھی پروگرام ہونے چاہیئے’ عائشہ مومند نے بتایا۔
مولانا خانزیب نے کہا کہ قبائلی عوام کئی دہائیوں سے ایف سی آر کے نیچے زندگی بسرکرتے آئے ہیں اس لیے ان کو اپنی بنیادی حقوق کےحوالے سے بھی آگاہی نہیں ہے تو نئے ریڈیو سٹیشن سے ایسے پروگرام نشرکرنے کی ضرورت ہے جس میں ان کو اپنے بنیادی حقوق کے متعلق آگاہی مل سکیں، اس کے علاوہ تاریخ اور مقامی اقدارو اور روایات کے حوالے بھی پروگرام ہونے چاہئے۔
ڈی جی انفارمیشن کا کہنا ہے کہ ان ریڈیو سٹیشنز کا مقصد یہ ہے قبائلی عوام کو تعلیم کے حوالے سے شعور اور آگاہی اور باقی معلومات فراہم کی جاسکیں اس کے علاوہ قبائلی عوام کو نوکریوں اور بھرتیوں کا بھی پتہ نہیں چلتا تو اس کے ذریعے وقتا فوقتا ان کو یہ معلومات بھی فراہم کی جاسکیں گی۔ اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا’ میرا ایک دوست ہے قبائلی اضلاع میں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ابھی تک روزگار کے حوالے سے جوبھی معلومات ہوتی تھی تو وہ اے سی یا ڈی سی گھوڑے پرکسی کو بٹھا کرمتعلقہ شخص تک معلومات پہنچاتے تھے تو اس سے ہم اناونسمنٹ کا کام بھی کرسکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ریاست کے خلاف سرگرمیوں اور پروپیگنڈوں کا بھی مقابلہ کیا جاسکتا ہے’
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان ریڈیو سٹیشز پرتیزی سے کام جاری ہے، البتہ کورونا وائرس کی وجہ سے تھوڑا تاخیر کا شکار ہے تاہم سال کے آخرتک تمام ریڈیو سٹیشنز سے نشریات کا آغاز ہوجائے گا۔ ڈی جی انفارمیشن کے مطابق ان ریڈیو سٹیشنز سے مقامی افراد کو روزگاربھی مل جائے گا کیونکہ تمام عملہ مقامی ہوگا جن کی بھرتی کا عمل بھی مکمل ہوگیا ہے البتہ ٹرانسمیٹرز انسٹالیشن پرکام جاری ہے۔