انیس سالہ حدیقہ نور تشدد واقعے کی تحقیقات شروع، سسرال والے بھی میدان میں آگئے
صوبائی حکومت کی جانب سے نوشہرہ میں سسرال اور پولیس کے مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی حدیقہ نور واقعے کی تحقیقات کے لئے بنائے جانے والی کمیٹی اراکین نے ان کے گھر کا دورہ کیا ہے اور ان کا بیان ریکارڈ کرنے کے ساتھ سسرال والوں کا فون ڈیٹا طلب کر لیا ہے۔
صوبائی حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لئے تین رکنی کمیٹی گزشتہ روز قائم کی تھی جس کی سربراہی قانون اور انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسد علی کر رہے ہیں۔
صوبائی وزیر برائے قانونی و پارلیمانی امور اور انسانی حقوق سلطان محمد خان نے کمیٹی کے قیام پر کہا تھا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور مظلوم خاتون کو انصآف کی فراہمی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
انسانی حقوق کمیشن نے چراٹ میں حدیقہ نور کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد جلوزئی تھانہ کا ریکارڈ بھی تحویل میں لے لیا جہاں پر انیس سالہ خاتون نے ان پر پولیس کی جانب سے تشدد کا الزام لگایا تھا۔
کمیشن اراکین نے تھانہ کی تصاویر بنائی اور پولیس اہلکاروں کے بیانات بھی ریکارڈ کر لئے۔
کمشن نے ایس ایچ او سمیت پولیس اہلکاروں حدیقہ کے شوہر، دیور امجد اور سسر کے موبائل ڈیٹا کی مکمل نقول طلب کرلی۔
کمیشن کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں حدیقہ نور نے کہا کہ جن پولیس اور لیڈی پولیس اہلکار نے اس پر تشدد کیا وہ سامنے آنے پر ان کی شناخت کرسکتی ہے۔
کمیشن کے حدیقہ نور کے بھائی ماجد شاہ نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرایا کہ ایف آئی آر میں متعلقہ دفعات اور پولیس اہلکاروں کے نام نہ شامل کرنے پر تحفظات ہیں
مزید پڑھیں!
نوشہرہ میں انیس سالہ لڑکی پر سسرال اور پولیس تشدد کیس نے نیا رخ اختیار کرلیا
وزیراعلیٰ نے نوشہرہ میں 19 سالہ لڑکی پر تشدد کا نوٹس لے لیا
انیس سالہ حدیقہ نور کے چند دن پہلے الزام لگایا تھا کہ وہ 7 ماہ کی حاملہ ہے اور ان کا شوہر باہر ملک میں مقیم ہے لیکن یہاں شادی کے بعد سے سسرال والے ان پر تشدد کرتے آ رہے ہیں اور ان کا دیور انہیں ناجائز جنسی تعلقات کے لئے مجبور کر رہا ہے اور انکار پر ان کے خلاف 12 لاکھ روپے اور دس تولے سونا کے چوری کا جھوٹا مقدمہ درج کردیا ہے۔
دوسری جانب آج بروز بدھ حدیقہ نور کے سسرال فیصل اور امجد نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔
پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے ان کے دیور امجد نے کہا کہ ان کی بھابھی شادی کے بعد سے ہی گھر سے چوری کرنے میں ملوث تھی لیکن گھر کی عزت کی خاطر پہلے خاموش تھے۔ ان کے سسر فیصل نے کہا حدیقہ نے جس دن ان پر تشدد کا الزام لگایا اسی دن درآصل وہ اپنے میکے میں تھی۔ انہوں نے اس معاملے میں میڈیا ٹرائل بند کرنے اور معاملے کی آصل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
حدیقہ نور نے مقامی تھانہ جلوزئی کے ایس ایچ او پر عبدالولی بھی الزامات لگائے ہیں کہ ان کے سسرال کے کہنے پر ایس ایچ او نے بھی ان پر جسمانی تشدد کیا ہے اور اب بھی انہیں مختلف طریقوں سے دھمکیاں دے رہا ہے۔
ایس ایچ او اور دیگر پولیس اہلکاروں نے بھی ان الزامات کی تردید کی تھی لیکن خاتون کے ویڈیوز سامنے آنے پر وزیراعلیٰ محمود خان نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے مذکورہ ایس ایچ او کو معطل کردیا تھا۔
وزیراعلیٰ نے واضح کر دیا تھا کہ اگر ایس ایچ اور لگائے گئے الزامات ثابت ہوگئے تو ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
گزشتہ روز صوبائی وزیر برائے قانونی و پارلیمانی امور اور انسانی حقوق کمیشن سلطان محمد خان نے واقعے کا نوٹس لیا ہے اور ڈاکٹر اسد علی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹس سے تحقیقات مکمل کرنے اور انہیں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کردی ہے۔