900 سٹکس پیک کرنے کا معاوضہ صرف ایک روپیہ، یہ ہیں خیبر پختونخوا کے ہوم بیسڈ ورکرز
خالدہ نیاز
‘میں ہر ڈیزائن کے کپڑے، بیڈ شیٹس اور پردے سی سکتی ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گاؤں میں کوئی زیادہ پیسوں والی چیزیں بناتا نہیں ہے اور مارکیٹ تک میری رسائی نہیں ہے’
ضلع نوشہرہ کے علاقے زخی سے تعلق رکھنے والی 40 سالہ رشدہ کا کہنا ہے کہ شوہر کی بیماری کے بعد انہوں نے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنے گھر کا خرچہ خود اٹھایا ہوا ہے۔
رشدہ نے بتایا کہ چار سال پہلے ان کے شوہرمیں کینسر کی تشخیص ہوئی جس کے بعد ان کے لیے زندگی بہت مشکل ہوگئی تھی کیونکہ گھر میں وہی ایک کمانے والا تھا اور باقی سب کھانے والے۔ رشدہ کے مطابق پھر انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ خود ہی کوئی کام کرلے اور اس طرح انہوں نے کپڑے سینے کا کورس کیا اور ساتھ میں بیوٹیشن میں بھی مہارت حاصل کی جس کے بعد اب تک وہ اپنے گھرمیں رہ کرہی کمائی کررہی ہیں۔
رشدہ نے کہا کہ کپڑے سینے کے ساتھ ساتھ اب وہ بازار سے کپڑا بھی لاتی ہے اور یہاں گاؤں میں فروخت کرتی ہیں جس سے وہ نہ صرف اپنے چار بچوں کا پیٹ پال رہی ہے بلکہ ان کو تعلیم بھی دلوا رہی ہیں اور اپنے شوہر کا علاج معالجہ بھی انہیں پیسوں سے کرتی ہیں۔
رشدہ نے بتایا کہ اگر ان کو باہر مارکیٹ سے آرڈر ملنا شروع ہو جائے تو انکی کمائی میں بہتری آسکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بارہا انہوں نے کوشش کی علاقے میں سلائی سنٹر کھولا جائے تاکہ اس میں باقی بچیوں اور خواتین کو بھی ہنر سکھائے اور خود بھی اچھے سے کام کرسکیں لیکن کسی نے انکی مدد نہیں کی۔
گھروں میں رہ کرکام کرنے والی خواتین کے کیا حقوق ہیں اس حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
نہ صرف رشدہ کو مسائل کا سامنا ہے بلکہ گھروں میں کام کرنے والی کئی خواتین مشکلات کا شکارہیں۔ کے پی ورکریونین کی ممبرہوم بیسڈ ویمن ورکرخیبرپختونخوا کی صدرتاجمینہ نے اس حوالے سے بتایا کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کو مزدور تسلیم نہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا یہ مسئلہ اسی صورت حل ہوسکتا ہے جب ان کے لیے قانون بن جائے کیونکہ قانون بننے سے انکو سوشل سکیورٹی کارڈ مل جائیں گے اور جو سہولیات باقی مزدوروں کو حاصل ہے ان کو بھی مل جائیں گے۔
گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی مشکلات اور ان کو ملنے والی آمدنی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تاجمینہ نے کہا کہ خواتین بہت زیادہ محنت کرتی ہیں لیکن ان کو اتنی اجرت نہیں ملتی جتنا ان کا حق ہوتا ہے’ مثال کے طور پر کام والے سوٹ مارکیٹ میں مہنگے داموں بیچے جاتے ہیں، 15 یا 20 ہزار میں ایک سوٹ فروخت ہوتا ہے لیکن جو خواتین دن رات ایک کرکے ان پہ کام کرتی ہیں ان کو بمشکل 5 یا 6 سو روپے دیئے جاتے ہیں کیونکہ کاروباری افراد اور ان خواتین کے درمیان ایک تیسرا بندہ سہولت کار ہوتا ہے اور وہ زیادہ منافع کماتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت ان کے لیے کچھ نہیں کررہی جبکہ ابھی تک ان کے لیے کوئی پالیسی بھی نہیں بنی۔ تجمینہ کے مطابق انہوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے مختلف سیاسی خواتین اور ایم پی اے ایز آسیہ اور زینب سے ملاقاتیں کی تاہم ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی لیکن اب زینب ایم پی اے نے ان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے لیے ضرور کچھ کریں گی۔
دوسری جانب ضلع نوشہرہ میں ہوم بیسڈ ورکرز اورمارکیٹ کے درمیان سہولت کار کا کردار اداکرنے والے 46 سالہ جاوید خان نے بتایا کہ ان کی روزی روٹی بھی اسی کام سے وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ زیادہ فائدہ ان کو ہوتا ہے ہم سارا دن گلیوں اور محلوں میں پھرتے ہیں اور گھرگھر جاکر مال اکٹھا کرتے ہیں اور پھر مارکیٹ میں جاکربھی فروخت کرتے ہیں ایسے میں ہمارا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور پٹرول کا بھی خرچہ ہوتا ہے اور ساتھ میں گھر میں بچوں کے لیے بھی کچھ لے جانا پڑتا ہے تو بس ہمارا بھی اس سے گزارہ ہی چل رہا ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایم پی اے آسیہ خٹک نے بتایا کہ ویمن خیبرپختونخوا میں تقریبا ہرگھرمیں خواتین کسی نہ کسی لحاظ سے کام کررہی ہیں تاہم ان کے حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے وہ کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں کافی میٹنگز بھی ہوچکی ہے۔
آسیہ خٹک کے مطابق ویمن کاکس میں ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے ایک بل کے ڈرافٹ پر کام ہورہا ہے جو آخری مراحل میں ہے اور حالات بہتر ہوتے ہی بہت جلد اس پہ کام مکمل ہوجائے گا جس کے بعد گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی رجسٹریشن بھی ہوجائے گی اور ان کو سہولیات بھی مل جائے گی۔
تاجمینہ نے بتایا کہ خواتین جو گھروں پررہ کرکام کرتی ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ ان کو مزدور تسلیم کیا جائے اورجو سہولیات اور مراعات مزدوروں کو دی جاتی ہیں ان کو بھی وہی دی جائے۔ تاجمینہ کے مطابق جب ان کے لیے قانون بن جائے گا تو اس طرح ہوم بیسڈ ورکرز کو بھی مفت تعلیم، مفت علاج معالجے کی سہولیات مل جائے گی اور مزدوروں کو بیٹی کے جہیز کے لیے جو ڈیڑھ لاکھ روپے ملتے ہیں ان کو بھی ملنا شروع ہوجائیں گے، اسی طرح ڈیتھ گرانٹ کے بھی حقدار ہوجائیں گی اور حادثے کی صورت میں مزدوروں کو جو مراعات ملتی ہیں وہ بھی انکو ملنا شروع ہوجائیں گی۔
تاجمینہ نے بتایا کہ اب ہوم بیسڈ ورکرز بھی اپنے حقوق سے آگاہ ہے اور اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ ایک تنظیم بھی بنائی ہے جو لیبرڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹرڈ ہے اور اس میں ان کے ساتھ پورے خیبرپختونخوا سے 800 خواتین ورکرز رجسٹرڈ ہے۔
تاجمینہ نے کہا کہ ان کو پورا معاوضہ نہ ملنا بھی ان خواتین کا بڑا مسئلہ ہے’ بہت ساری خواتین آئس کریم کارخانوں کے لیے سٹکس پیک کرتی ہیں اور ایک پیک میں قریبا 900 سٹکس ہوتے ہیں لیکن اس پیکنگ کے ان کو صرف ایک روپیہ ملتا ہے تو ایک روپیہ سے آج کے دور میں کیا ہوسکتا ہے، ان کے معاوضوں کوم بڑھانا چاہیئے اور یہ تب ممکن ہے جب ان ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے بھی کوئی پالیسی موجود ہو’
تاجمینہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں گھروں میں کام کرنے والی خواتین کڑھائی، سلائی، کپڑوں پہ کام، گلدستے، نمکو کی پیکنگ اور پردے بناتی ہیں جبکہ ضلع نوشہرہ کی خواتین چاردروں پہ کڑھائی، کپڑوں پہ گلکاری اور رضائیاں بنانے میں اپنی مثال آپ ہے لیکن ان کو محنت کے مطابق معاوضہ نہیں ملتا۔
اگرچہ گھروں میں کام کرنے والی بہت ساری خواتین کم معاوضہ ملنے کا گلہ کرتی ہیں تاہم فیشن ڈیزائنر در شہوار نے اس کا حل نکال لیا ہے۔ درشہوار کا کہنا ہے کہ انہوں نے ستمبر2019 میں چنگاری کے نام سے پشاور میں ایک فیشن برانڈ کھولا ہے اور ان کے پاس فی الحال 5 خواتین کام گھروں سے کام کررہی ہیں لیکن وہ اپنے اور ان خواتین کے درمیان کسی تیسرے کو لائے بغیر کام کررہی ہیں اور اس طرح ان خواتین کو ان کا جائز حق مل جاتا ہے۔
در شہوار نے بتایا کہ وہ ان خواتین کے ہنر کو پالش بھی کرتی ہیں کیونکہ وہ خود ایک فیشن ڈیزائنر ہے تو باقی خواتین کے ہنر کو نکھارتی بھی ہے اور اکثر پہلی ڈیزائننگ وہ خود کرتی ہیں اور بعد میں ان خواتین ورکرز کو دکھاکر ان سے کام کرواتی ہیں۔ در شہوار نے بتایا کہ وہ ان خواتین ورکر کو دوپٹے پہ لیس لگانے کا بھی 800 روپے دیتی ہے اور باقی جو کوئی جتنا کام کرتا ہے ان کو اتنا ہی معاوضہ ملتا ہے۔ درشہوار کے مطابق ان کے پاس پانچ خواتین ورکرز کے علاوہ 3 انٹرنز بھی ہے اور وہ باقی ہنرمند خواتین کو بھی خوش آمدید کہتی ہیں جو کام کرنا یا سیکھنا چاہتی ہیں۔
ہوم بیسڈ ورکر کا ملک کی معیشت میں کیا کردار ہے؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی میں شعبہ اکنامکس کے پروفیسر اور ماہر معاشیات ڈاکٹر ذلاکت خان نے بتایا کہ لیبر فور سروے کے مطابق پورے ملک میں 8۔4 میلین لوگ گھروں سے کام کررہے ہیں اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونائیٹیڈ نیشن ویمن کی 2016 رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز سالانہ 400 بیلین روپے کمارہے ہیں جن میں سے 65 فیصد خواتین ورکرز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز سہولیات سے محروم ہیں اگر انکو سہولیات دی جائے تو یہ لوگ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور زیادہ کمائی کرسکتے ہیں۔
‘حکومت کو چاہیئے کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے گاوں کی سطح پر ادارے اور چھوٹے چھوٹے صنعت بنائے اس طرح ایک تو انکے کام میں مزید نکھار پیدا ہوگا دوسرا انکی نیٹ ورکنگ ہوگی اور جو تیسرا آدمی یعنی کمیشن ایجنٹ ہوتا ہے اس کی ضرورت ختم ہوجائے گی تو انکو معاوضہ بھی زیادہ ملنا شروع جائے گا کیونکہ اس طرح مارکیٹ تک انکی رسائی آسان ہوجائے گی، اس کے ساتھ ساتھ انکے لیے قانون بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے اور پھر اس قانون پر عمل درآمد بھی اگر کیا جائے تو یہ نہ صرف ان کے بہتر ہوگا بلکہ اس سے ملکی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا’ ڈاکٹر ذلاکت خان نے وضاحت کی۔
اگرچہ خیبرپختونخوا میں ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے کوئی قانون موجود نہیں تاہم کئی ادارے ان کے حقوق کے لیے کام کررہے ہیں۔ ہوم بیسڈ ورکرزکے حقوق کے لیے سرگرم ادارے د ہوا لور کی انتظامی افسر خورشید بانو نے تاجمینہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ان خواتین کے کام کا زیادہ فائدہ اس مڈل مین کو ہوتا ہے جو ان کے لیے مارکیٹ سے لاتا اور جاتا ہے کیونکہ ہمارے صوبے کے رسم ورواج کے مطابق خواتین بہت کم گھروں سے نکلتی ہیں اور مڈل مین پر ہی انحصار کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بہت زیادہ خواتین گھروں میں رہ کرکام کررہی ہیں تاہم بدقسمتی سے ابھی تک ان کے حوالے سے حکومتی سطح پر ایک سروے تک نہیں ہوا جسکی وجہ سے یہ خواتین حکومت کے کسی سکیم کا بھی حصہ نہیں بنتی اور اپنے حقوق سے بھی محروم ہیں۔
خورشید بانو نے کہا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے ابھی تک کوئی قانون یا پالیسی نہیں بنی جسکی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا، مارکیٹ تک انکی رسائی نہیں ہے تو ایسے میں اگر وہ بہت اچھا اور منفرد کام بھی کرتی ہیں تو ان کو وہ فائدہ نہیں ملتا جو ملنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا’ ہمارا ادارہ ہوم بیسڈ ورکرز کے حقوق کے لیے کام کررہا ہے، ابھی تک ہم نے انکی پارلیمنٹریئنز سے ملاقاتیں کروائی ہیں، ان کو مختلف قسم کی ٹریننگز دی ہے کہ لیبر قوانین کیا ہے، ان کے لیے پالیسی کیوں ضروری ہے، ان کو اولڈ ایج بینیفٹس کے حوالے سے آگاہی دی ہے، ان کو تنظیم سازی کی اہمیت کے بارے میں بتایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انکو کمپیوٹر لیٹریسی ٹریننگ بھی دی ہے کہ کس طرح آن لائن اپنی بنائی ہوئی چیزیں اچھے داموں فروخت کرسکتی ہیں’
خورشید بانو نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کچھ سنٹر بھی کھول رکھے ہیں جہاں خواتین کو مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں اور آنے والے وقت میں ان کا ارادہ ہے کہ ہوم بیسڈ خواتین کو بنیادی تعلیم دیں کیونکہ یہ خواتین زیادہ تران پڑھ ہوتی ہیں جسکی وجہ سے نہ تو پیسوں کا حساب رکھ سکتی ہیں اور نہ اپنا دستخط کرسکتی ہیں۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر عرفان خان کا کہنا ہے ان کے پاس ہوم بیسڈ ورکرز کے حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اب تک ان کے لیے کوئی قانون یا پالیسی بنی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہوم بیسڈ ورکرز غیر رسمی یا غیر شناخت شدہ کاروبار یا کام کرتے ہیں تو اسکا کوئی بھی ریکارڈ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے پاس موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ ان کے لیے قانون بنانے کے حوالے سے سرگرم ہے اور اس سلسلے میں کورونا وبا سے ایک ہفتہ پہلے ایک میٹنگ کی گئی تھی جس میں ہوم بیسڈ ورکرز کے کام قانون اور حقوق کے حوالے سے ایک بل بنایا گیا ہے تاکہ ہوم بیسڈ ورکرز کے لئے کوئی ترکیب تیار ہو جائے اور ان کو وہ حقوق مل جائے جو دوسرے ورکرز کو حاصل ہے۔
عرفان خان نے مزید کہا کہ اس حالات بہتر ہونے کے بعد ہوم بیسڈ ورکرز کے حقوق کے حوالے سے مزید میٹنگ کئے جائیں گے اور قانون بننے کے بعد ان کو بھی وہی حقوق مل جائیں گے جو باقی ورکرز کو مل رہے ہیں۔
بل کے اہم نکات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں ان کو مزدور تسلیم کرنا، ہیلتھ اور سیفٹی، کام کرنے کا دورانیہ اور مالک کے ساتھ معاہدے سمیت ان کے حقوق کے حوالے سے باتیں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ اس بل میں ان کو سوشل سکیورٹی اور رجسٹریشن کا بھی حق مل جائے۔ عرفان خان نے مزید کہا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ ہوم بیسڈ ورکرز کو یونین سازی کا حق دیا جائے کیونکہ اس سے وہ نہ صرف اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاسکیں گے بلکہ زیادہ ترمسائل بھی اسی کے ذریعے حل ہوپائیں گے۔