خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘قانون یا پالیسی ہے نہیں، ہوم بیسڈ ورکرز خصوصاً خواتین کا استحصال جاری ہے’

ناہید جہانگیر

‘شوق اور مجبوری نے تمام ہنر سکھائے، بچپن سے ہی غربت میں آنکھیں کھولیں، ان ہنر سے اپنے اور اپنے گھر والوں کے پیٹ پالنے میں ایسی مگن تھیں کہ کب بالوں میں چاندی لگی پتہ ہی نہیں چلا۔’

پشاور کی فرخندہ جبین بھی ایسی ہی خواتین میں سے ایک ہیں جو گھر پر سلائی کڑھائی سمیت مختلف کام کرتی ہیں لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود ان کی مالی حالت نہ سدھر سکی کیونکہ انہیں اپنے کام کا صحیح معاوضہ نہیں ملتا۔

‘ہوم بیسڈ یعنی گھروں پر کئے جانے والے کام آج کل کے دور کا سب سے سستا کاروبار ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت نے اس کے لئے نہ کوئی پالیسی بنائی ہے اور نہ ہی قانون۔’

خیبر پختونخوا کے ہوم بیسڈ وومن ورکرز کی صدر تاج مینہ کہتی ہیں کہ ہوم بیسڈ ورکرز زیادہ تر خواتین ہیں لیکن پالیسی اور قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کا استحصال ہو رہا ہے، ان کے ہاتھوں کی بنی ہوئی مصنوعات ان سے 500، 600 میں خریدے جاتے ہیں بعد میں برانڈز جنہیں 20,000 تک بیچتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گھروں میں کام کرنے والوں کو مزدور تسلیم نہیں کیا جاتا۔

گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی مشکلات اور ان کو ملنے والی آمدنی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تاج مینہ نے کہا کہ خواتین بہت زیادہ محنت کرتی ہیں لیکن ان کو اتنی اجرت نہیں ملتی جتنا ان کا حق ہوتا ہے ‘وہ جو دستکاری یا سلائی کڑھائی کی چیزیں تیار کرتی ہیں وہ کم قیمت پر مارکیٹ میں ان سے لی جاتی ہیں۔’

‘ تھوڑا ہوش سنھبالا تو باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا پھر والدہ نے وہ تمام ہنر سکھا دیئے جو ان کے پاس تھے، اپنی والدہ کے ساتھ مل کر گھر میں سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا اور اپنی والدہ کے ساتھ اپنے بھائی بہنوں کا پیٹ پالنے میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ شاہ گل کے نام سے معروف فرخندہ جبین نے بتایا۔

والدہ نے بھی سارا بوجھ کم سن فرخندہ کے کندھوں پر ڈال کر ان سے منہ موڑ لیا اور اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئیں اور شاہ گل وقت سے پہلے بڑی ہوگئیں۔

گھر پر ہی لوگوں کے کپڑے اور رضائیاں سیتیں اور4 بہنوں اور 2 بھائیوں کو ماں باپ بن کر پالا پوسا یہاں تک کہ سب کی شادیاں بھی کرا دیں لیکن جب خود کی طرف توجہ کی تو سر میں چاندی اتر چکی تھی، مگر قسمت میں شادی تھی تو 2005 میں شادی ہوگئی لیکن شاہ گل اپنے ساتھ اپنی قسمت وہاں بھی لے کر آئی تھیں۔

ان کا شوہر پہلے سے ہی شادی شدہ تھا اور شادی کے کچھ سال بعد وہ بیمار ہو کر چارپائی کے ہو کر رہ گئے۔ شادی گل نے پھر سے وہی محنت مزدوری شروع کی۔

شاہ گل کے مطابق مجبوری اور شوق نے ان کو کافی ہنر سکھائے۔ 2014 میں شوہر کی کینسر سے وفات کے بعد ان کی زندگی کافی مشکلات سے دوچار ہوئی، اولاد جیسی نعمت سے بھی محروم رہیں۔

خاوند کی وفات کے بعد چیمبر آف کامرس کی طرف سے ملازمت کا موقع ملا۔ کافی اچھی تنخواہ دیتے تھے پھر اس نوکری کے بعد جم جیولریز کی ایک تربیتی ورکشاب میں حصہ لینے کا موقع ملا جہاں سے آرٹیفیشل جیولری بنانے کا ہنر سیکھا اور پھر یہ ہنر دیگر ڈھیر ساری خواتین کو بھی سکھایا۔

فرخندہ جبین نے مزید کہا کہ اب وہ اس قابل ہیں کہ جو چیز ان کی نظروں سے گزر جائے وہ اسے آسانی سے بنا سکتی ہیں۔

وہ اب گھر میں ہی جیولری، کپڑے اور ڈیکوریشن کی چیزیں بناتی ہیں اور آسانی سے اپنا خرچہ چلاتی ہیں لیکن پھر بھی سمجھتی ہیں کہ جتنی محنت انہوں نے کی ہے اس کا برابر صلہ نہیں ملا۔

حکومت کو چائیے کہ ایسی ہنر مند خواتین جو بیواہ ہیں اور اولاد بھی نہیں انکی مالی معاونت کریں، کیونکہ کب تک اس ہنر سے اپنا گزارہ کریں گی۔ اور ان سے اتنا معاوضہ نہیں ملتا جو بڑھاپے میں سہارا دیں۔

شاہ گل کو کچھ اداروں کی طرف سے بیسٹ ہنر ایوارڈ بھی ملے جن میں چیمبر آف کامرس کی جانب سے 3 مرتبہ، پودا اسلام آباد نجی ادارے اور ‘لور د حوا’ (بنتِ حوا) کی جانب سے 2 مرتبہ جبکہ ورلڈ بنک کی جانب سے ایک مرتبہ ایوارڈ ملا لیکن گورنمنٹ کی طرف سے حوصلہ افزائی یا امداد نہ ملنے پر کافی ناخوش ہیں۔

اس حوالے سے بتایا کہ ملکی معیشت کی بہتری میں بھی ہنرمند خواتین کافی حد تک ہاتھ بٹا سکتی ہیں اگر حکومت کی طرف سے ان کو آسان شرائط پر فنڈز دیئے جائیں۔

تاج مینہ نے بھی شاہ گل کے موقف کی تائید کی اور بتایا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کو حکومت نے آج تک کوئی اہمیت نہیں دی اور نہ ہی ان کے لیے کوئی پالیسی بنائی گئی۔

تاج مینہ نے بتایا کہ اب ہوم بیسڈ ورکرز بھی اپنے حقوق سے آگاہ ہے اور اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ ایک تنظیم بھی بنائی ہے جو لیبرڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹرڈ ہے اور اس میں ان کے ساتھ پورے خیبرپختونخوا سے 800 خواتین ورکرز رجسٹرڈ ہے۔

تاج مینہ نے کہا کہ پورا معاوضہ نہ ملنا بھی ان خواتین کا بڑا مسئلہ ہے، ان کے معاوضوں کو بڑھانا چاہیئے اور یہ تب ممکن ہے جب ان ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے بھی کوئی پالیسی یا قانون بنایا جائے۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر عرفان خان نے ملک کی معیشت میں ہوم بیسڈ ورکرز کے کردار کے حوالے سے بتایا کہ ہوم بیسڈ ورکرز غیر رسمی یا غیر شناخت شدہ کاروبار یا کام ہے تو اس کا کوئی بھی ریکارڈ لیبر ڈپارٹمنٹ کے پاس موجود نہیں ہے۔

انہوں نے قانون یا پالیسی سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ کورونا وباء سے ایک ہفتہ پہلے ایک میٹنگ کی گئی تھی جس میں ہوم بیسڈ ورکرز کے کام، قانون اور حقوق کے حوالے سے ایک بل بنایا گیا ہے تاکہ ہوم بیسڈ ورکرز کے لئے کوئی مکینزم تیار ہو جائے، دوسری میٹنگ حالات بہتر ہونے کے بعد ہو گی، یہ بل اسمبلی میں جائے گا اور امید ہے کہ وہاں سے پاس ہوگا اور ہوم بیسڈ ورکرز کو قانونی حقوق حاصل ہوجائیں گے۔

اس میٹنگ کا خاص مقصد یہ تھا کہ ہوم بیسڈ روکرز کو کون کون سے مسلے ہیں اور انکی اہم ضرویات کیا ہیں جو اس بل میں شامل کی جائیں۔ اس بل میں بنیادی نکات میں سے ہوم بیسڈ ورکرز کی ماہانہ آمدنی،ڈیوٹی اوقات کار،مالک کے ساتھ ایگریمنٹ، صحت کی سہولیات وغیرہ شامل ہیں۔

دوسری اہم حقوق جس پر تفصیل سے بات ہوئی وہ ان ہوم بیسڈ ورکرز کے لئے یونین سازی یا ایسوسی ایشن قائم کرنا ہے۔ جب انکا اپنا فورم بنے گا تو یہ آسانی کے ساتھ اپنے مسائل حل کرسکیں گے۔

ڈائریکٹر عرفان خان کے نے مزید کہا کہ جب ان کے لئے قانون بنے گا تو پھر ہوم بیسڈ ورکرز کا ریکارڈ بنے گا اور ان کو حقوق بھی ملنا شروع ہو جائیں گے کیونکہ اب یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ان لوگوں کو کام کے حوالے سے شناخت ملے۔

پشاور یونیورسٹی اکنامکس ڈپارٹمنٹ کی لیکچرار ڈاکٹر صنم وگمہ خٹک نے ہوم بیسڈ ورکرز کی ملکی معشیت میں کردار کے حوالے سے کہا کہ چھوٹے پیمانے پر جو بزنس ہوتا ہے وہ اکثر تعمیر سہولت کے بجائے گھر سے چلتے ہیں، ان صنعتوں کو پاکستان کی معیشت میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔

آبادی میں اضافہ عام طور پر پاکستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں زیادہ تر خاندان آمدنی کے لئے کاٹیج صنعتوں پر منحصر ہوتے ہیں اور زائد آمدنی کے لئے ایک اہم وسیلہ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ لیکچرار ڈاکٹر صنم وگمہ خٹک نے کہا۔

انہوں نے بتایا کہ کاٹیج اور چھوٹی صنعتیں تقریباً 80 فیصد صنعتی مزدوروں کو روزگار فراہم کرتی ہیں جس سے بے روزگاری میں کمی آتی ہے اور خود روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔

صنم وگمہ خٹک نے مزید کہا کہ روایتی طور پر خواتین کو گھروں سے باہر کام کرنے کی ترغیب نہیں دی جاتی ہے، کاٹیج یا چھوٹے پیمانے پر صنعتیں جیسے قالین، موم بتی اور دستکاری کی صنعت کو گھروں میں قائم کیا جا سکتا ہے اور خواتین کے ہنر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جس سے مزدوروں کی قوت بڑھ جاتی ہے اور ساتھ میں یہ صنعتیں صنعتی سامان کے مقامی مطالبوں کو بھی پورا کرتی ہیں اور درآمدات میں خرچ ہونے والے زرمبادلہ کو بھی بچاتی ہیں، بین الاقوامی مارکیٹ میں، قالین، پیتل کا سامان، دستکاری اور کڑھائی کے کام کی مانگ ہے، اس سامان سے 30 فیصد برآمدات مینوفیکچرنگ سیکٹر کو مہیا ہوتی ہیں۔

حکومت کی توجہ کے معتلق انہوں نے کہا کہ جب دیہاتوں میں لوگوں کو فائدہ مند طریقے سے ملازمت دی جائے تو دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں لوگوں کی نقل مکانی میں کمی آئے گی، شہری علاقوں میں رہائش، صفائی ستھرائی، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور صحت کے شدید مسائل کم ہوجائیں گے، بہت سے اضلاع کم ترقی یافتہ ہیں، اس طرح کی صنعتوں کی توسیع سے آمدنی میں علاقائی تفاوت کو کم کیا جاسکتا ہے، چھوٹی صنعت کو زیادہ سرمایہ اور اعلی ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے اور کاٹیج اور چھوٹے پیمانے پر صنعتوں میں زیادہ درآمد شدہ مواد یا آلات استعمال نہیں ہوتے۔

ہوم بیسڈ ورکرز کی اہمیت اور مسائل کے حوالے سے پشاور سے تعلق رکھنے والی مرینہ خان جو سمیڈا کے ساتھ لیازن ایںڈ آئڈینٹیفیکیشن آفیسر کے طور پرکام کر رہی ہیں نے بتایا کہ وہ زیادہ تر ان خواتین کے ساتھ وابستہ رہیں جو ہوم بیسڈ کاروبار چلاتی ہیں یا ہوم بیسڈ کاروبار کو فیسلیٹیٹ کرتی ہیں۔

مرینہ خان نے کہا کہ آج کل ملک اور لوگ جن حالات سے گزر رہے ہیں اس سے ہوم بیسڈ کاروبار میں فراوانی آئی ہے، ان حالات میں ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے ان کی آفرز اور سروسز کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے، ہوم بیسڈ کاروبار میں ٹرانسپورٹ کی بچت ہوتی ہے، وقت بچ جاتا ہے، زیادہ قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کرنا پڑتا اور یہ 7/24 اور پورا مہینہ کیا جاتا ہے یہ نہیں ہے کہ دفتر صبح 9 جاؤں اور 5 تک کام کروں، گھر میں ایک ورکر اوور ٹائم کر سکتا ہے۔

مرینہ خان نے بتایا کہ جو خواتین گھر پر سلائی کڑھائی یا کوئی دوسری چیزیں تیار کرتی ہیں تو ان کی قیمت بھی بازار کی چیزوں سے کم ہوتی ہے کیونکہ ہوم بیسڈ کاروبار آج کے دور میں سب سے زیادہ سستا ہے جس کے ذریعے سے خاتون بہت آسانی کے ساتھ اپنا ہنر بیچ سکتی ہیں اور خریدار کو بھی عام مارکیٹ سے کم قیمت پر چیزیں مل جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس وباء کے دنوں میں کاروبار کے حوالے سے سروے سے پتہ چلا ہے کہ جس کاروبار کو ان دنوں نقصان نہیں پہنچا وہ ہوم بیسڈ کاروبار ہے جو آسانی کے ساتھ ہوم ڈیلیوری سے چل رہا ہے اور ایک محفوظ کاروبار قرار پایا ہے۔

ورکرز کے کردار کے معتلق مرینہ خان نے کہا کہ جو لوگ اور خاص کر جو خواتین گھروں میں چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار چلاتی ہیں وہ نہ صرف گھر کے اخراجات پورے کرنے اور گھر کے حالات بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ ملک کی معیشت مستحکم کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں، ہوم بیسڈ کاروبار ایک بہترین آپشن ہے جس کے ذریعے ایک ورکر ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان جی ڈی پی میں چھوٹی اور کاٹیج صنعتوں کا حصہ صرف 5 فیصد ہے۔

"خاوند میرا بہت غریب تھا لیکن زندگی تو گزارنا تھی، ایک دن گھر میں بیٹے کے بان سے بنے جھولے پر نظر پڑی تو اسے گھر میں لگا کر معمولی سی اجرت پر اڑوس پڑوس کے بچوں کو جھولا جھولانے لگی اور اس طرح زندگی کی دوڑ میں شوہر کے ساتھ محنت مزدوری کیلئے کمربستہ ہو گئی۔”

یہ گفتگو وزیرباغ کی رہائشی بس پری نامی خاتون کی ہے جنہیں سب ببو بلواتے ہیں۔

ملک کی معیشت میں ہوم بیسڈ شاہ گل کی طرح ببو بھی کئی سالوں تک گھر میں محنت مزدوری کے بعد اب اس قابل ہو گئی ہیں کہ زندگی اچھی گزار رہی ہے۔

بس پری نے بھی اپنی جوانی محنت مزدوری میں گزار دی لیکن اس سے نہ صرف اپنے بچوں کا مستقبل بنایا بلکہ مالی حالت بھی اتنی اچھی کرلی کہ بڑھاپا آرام سے گزرے گا۔

ببو نے بتایا کہ اپنی محنت مزدوری صرف اس جھولے تک محدود نہیں رکھی بلکہ دیہاڑی بھی کی، یومیہ اجرت پر کام کیا۔
بقول ان کے گھر میں فاقوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، پاس ہی دیور کا مکان بن رہا تھا تو اس میں محنت مزدوری کی جہاں روزانہ انہیں دیہاڑی مل جاتی تھی۔

ببو نے بتایا کہ آہستہ آہستہ جھولے سے گزارہ حال آمدن ہونے لگی تو گھر میں ایک اور جھولا لگا دیا اور لکڑی کا جھولا لوہے کے جھولے میں بدل گیا۔

بس پری کے مطابق ان کے شوہر دودھ دہی کی دکان میں ملازم تھے جہاں سے وہ دہی لاتے تو وہ اس کی لسی بنا کر گھر ہی میں اڑوس پڑوس کی خواتین اور بچوں کے ہاتھ فروخت کرتیں۔

ببو کے مطابق گھر کے اندر وہ مربہ، اچار، دہی اور لسی تیار کرواتی ہیں اور پھر پڑوس کے گھروں میں بیچتی ہیں، سارے ان کے ہاتھ کی بنی چیزیں پسند کرتی ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف اپنے شوہر کا ہاتھ ہی نہیں بٹایا بلکہ اپنے خاندان کو غربت سے نکال لائی ہیں اور آج کل ایک خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔

انہوں نے روہانسی آواز میں کہا کہ وہ ہر خاتون سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ حلال کی کمائی میں کوئی عار کوئی شرم نہیں، میری مزدوری کو کبھی کسی نے برا نہیں کہا اڑوس پڑوس میں سب ببو کہہ کر بلاتے ہیں اور جہاں بھی وہ جاتی ہیں لوگ دونوں ہاتھ اٹھا کر انہیں سلام کہتے ہیں۔

ببو نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ آج بھی عید پر وہ 30 ہزار تک صرف ان جھولوں سے کما لیتی ہیں جس پر وہ اللہ کا بہت شکر ادا کرتی ہیں۔

ببو جیسی ہوم بیسڈ ورکرز ہی ہیں جن کو حکومت کی جانب سے کوئی سہولیات تو نہیں ملتیں لیکن وہ پھر بھی ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، سمیڈا( سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزر ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی منیجر نبیلہ فرمان آفریدی نے کہا۔

ان کا کہنا تھا کہ تعیلم کی کمی کی وجہ سے ہوم بیسڈ ورکر آگے بڑھنے کے لئے راستہ نہیں بنا سکتے اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے اپنے پراڈکٹ کو وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل نہیں کر سکتے، خواتین گھروں میں چیزیں بنا سکتی ہیں لیکن ان کو گروم نہیں کرتیں اور وہی ٹیپیکل طریقہ کار کے ساتھ ابھی تک سٹک ہیں۔

نبیلہ آفریدی نے کہا کہ ہوم بیسڈ خواتین کی وومن چیمبر اور بہت سے نجی ادارے اور این جی اووز مدد کرتے ہیں یا ان کو سہولیات مہا کرتے ہیں، اب ضروری یہ ہے کہ ان کو جمع کیا جائے اور گروپ کی صورت وومن چیمبر کے ساتھ رجسٹرد کیا جائے۔اور پھر انہی کے ذریعے سمیڈا کاروبار میں ان کی جتنا ہو سکتا ہے مدد کرسکتا ہے۔

سمیڈا ایسی خواتین کو جو ہنر جانتی ہیں تربیت دیتا ہے کہ وہ اپنی پراڈکٹ کو کیسے بہتر بنا سکتی ہیں، ان کو حساب کتاب اور اکاونٹ وغیرہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے، نبیلہ آفریدی نے کہا۔

مینجر آف سمیڈہ نے ہوم بیسڈ ورکرز کے کام کو بہتر کرنے کے حوالے سے کہا کہ ان کو ایسی خواتین کے ساتھ کنکٹ کیا جاسکتا ہے جن کے پاس پیسہ ہے اور وہ کاروبار میں لگانا چاہتی ہیں، یہی ہنرمند خواتین سے وہ اچھا اور معیاری کام کم لاگت میں لے سکتی ہیں اور ساتھ ساتھ میں ان کی مختلف تربیت بھی کر سکتی ہیں جو اپنا اور خاص طور پر ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر سے بہترین بنا سکتی ہیں۔

ہوم بیسڈ ورکرز کے اعداد وشمار کے حوالے سے نبیلہ آفریدی نے کہا کہ ہوم بیسڈ ورکرز ویمن چیمبر اف کامرس اور این جی اوزکے ساتھ کاروبار کے لئے رجسٹرڈ ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ کہ ان کے پاس سپورٹیو بزنس پروجیکٹ ہوتے ہیں ن سے ان خواتین کی مدد کی جاسکتی ہیں۔

لیکن جہاں تک سمیڈا کا تعلق ہے اسکا مینڈیٹ کافی بڑا ہے کیونکہ سمیڈا حکومت اورایس ایم ای (سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز) کے لئے ایڈوائرزی بوڈی ہے۔ سمیڈا صرف گھر پر کام کرنے والی خواتین کو صرف مشورے اور تربیت دے سکتا ہے لیکن کاروبار کے لئے سپورٹ نہیں کرسکتا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button