پشاور کی پہلی سکھ خاتون صحافی برطانیہ میں ایوارڈ کے لیے نامزد
خالدہ نیاز
پشاور سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی پہلی سکھ خاتون صحافی من میت کور کو برطانیہ میں ایک ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران من میت کور نے بتایا کہ انہیں سکھ برادری کی خدمات اور ان کے مسائل اجاگر کرنے کی وجہ سے برطانیہ میں دی سکھ گروپ نے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے جس پر وہ بہت خوش ہے۔ من میت کور کے مطابق ابتدائی طور پرپوری دنیا سے 100 لوگوں کو نامزد کیا گیاہے جن میں سے پھر چند افراد کو منتخب کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دی سکھ گروپ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو ہر سال ایوارڈ کا انعقاد کرتا ہے اور مختلف ممالک سے ایسے سکھ لوگوں کو ایوارڈ دیتا ہے جن کی کوئی خدمات ہوتی ہیں۔ ان کو اس ایوارڈ کے لیے کیوں نامزد کیا گیا اس حوالے سے من میت کور نے بتایا ‘ مجھے انہوں نے اس لیے نامزد کیا کہ میں نے پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی اور اقلیتوں کے لیے کام کیا ہے، میرے ساتھ ہندوستان سے گلوکار ایمی ورک اور گورو رنداوا بھی نامزد ہوئے ہیں اور اس ادارے نے سابقہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو بھی ایوارڈ دیا ہے تو یہ میرے لیے فخرکی بات ہے’
انہوں نے کہا کہ ان کو یہ ایوارڈ ملنے سے خواتین کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ نوکری کو برا نہ سمجھیں اور محنت کریں کہ ایک دن انکی محنت کا پھل ان کو ضرور ملے گا۔
من میت کور نے کہا کہ اگر ان کو یہ ایوارڈ ملتا ہے تو وہ وہاں جاکر پورے پاکستان کی نمائندگی کریں گی کہ یہاں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں اور اپنے علاقے اور ملک کے لوگوں کی خدمت کررہی ہیں۔
من میت کور نے کہا ‘ جب 2018 میں میں نے رپورٹنگ شروع کی تو میرے خاندان والے اور برادری والے اس بات سے خوش نہ تھے کہ اب تم باہر جاکر کام کروگی تو باقی لڑکیاں بھی تمہارے پیچھے باہر نکلے گی اور ہماری برادری کی لڑکیاں زیادہ باہر نہیں نکلتی، خاندان والے کہتے تھے کہ پشاور کے حالات ٹھیک نہیں ہے اور تم لڑکی ہوکر کیسے اس کا مقابلہ کروگی لیکن جب میں نے اپنے لوگوں کے مسائل پررپورٹنگ کرنا شروع کی تو پھر سب بہت خوش تھے اور میری حوصلہ افزائی بھی اب بہت کرتے ہیں’
25 سالہ من میت کور شادی شدہ ہے اور ایک بچے کی ماں بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں اور صحافتی ذمہ داریاں بھی اچھے طریقے سے نبھارہی ہیں۔
پشاور یونیورسٹی سے سوشل ورک میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والی من میت کور نے کہا کہ سکھ برادری کی لڑکیاں زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں اور ملازمت بھی زیادہ نہیں کرتی تو شروع میں ان کو خود بھی تھوڑا ڈر محسوس ہورہا تھا کہ آیا لوگ ان کو قبول کریں گے بھی یا نہیں اور یہ کہ فیلڈ کا کام کیسے کریں گی لیکن بعد میں جب انہوں نے کام کیا تو خاندان نے ان کو بہت زیادہ سپورٹ کیا اور کہا کہ ہم ہیں جاو کام کرو جس کے بعد ان کے اندر بھی حوصلہ پیدا ہوگیا اور اب وہ خود اعتمادی کے ساتھ اپنی برادری کے لوگوں کے لیے کام کررہی ہیں۔
من میت کور نے بتایا کہ اگر ان کو یہ ایوارڈ نہیں بھی ملتا پھربھی وہ خوش ہیں کہ اتنے بڑے ایوارڈ کے لیے نامزد تو ہوئی اور اگر ایوارڈ مل جاتا ہے تو بہت زیادہ خوشی ہوگی کیونکہ اس سے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ پوری اقلیتی برادری کے لیے فخر کا مقام ہوگا اور اقلیتی برادری کی ان تمام خواتین کو بھی حوصلہ ملےگا جو مختلف سیکٹر میں کام کررہی ہیں یا کام کرنا چاہتی ہیں اور ایوارڈ
من میت کور کے مطابق شروع میں انسان کو ہرکام میں مشکلات پیش آتی ہیں لیکن اگر انسان ہمت کریں اور کوشش جاری رکھے تو ایک دن وہ اپنی منزل ضرور پاتا ہے اور انسان کو اصل خوشی اس وقت ملتی ہے جب اس کے کام کی حوصلہ افزائی ہوجائے اور یہی وجہ ہے انکی برادری کے لوگ جو شروع میں اس شعبے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اب ان کو ایک رول ماڈل کے طور پردیکھتے ہیں۔