”آزادی صحافت کا نعرہ ہی آزادی صحافت کے منہ پر طمانچہ ہے”
افتخار خان
دنیا بھر کی طرح آج پاکستان میں بھی جہاں ایک جانب آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے وہاں دوسری طرف شمالی وزیرستان میں 14 سال پہلے شہید کئے گئے صحافی حیات اللہ کا خاندان آج بھی ان کی موت کی تحقیقاتی رپورٹ کے لئے عدالتی جنگ لڑ رہا ہے۔
2001 کے بعد سے خطے میں پھیلی خونریزی کے نتیجے میں حیات اللہ قبائلی علاقوں سے چوتھے جبکہ ملک بھر میں چھٹے صحافی تھے جو اپنی بے باک صحافت کی وجہ سے مارے گئے ہیں۔
حیات اللہ نہ صرف ملکی بلکہ کئی عدد انٹرنیشنل میڈیا اداروں کیساتھ بھی وابستہ تھے اور باقاعدگی کے ساتھ لکھتے رہتے جنہیں دسمبر 2005 میں اغوا کیا گیا اور جون 2006 میں میرعلی سے ان کی گولیوں سے چھلنی لاش اس صورت میں ملی کہ ہاتھوں کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔
واقعے کے خلاف ملک بھر میں اور بین الاقوامی سطح پر صحافتی تنظیموں کے احتجاجی تحریکوں کے بعد اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے پشاور ہائی کورٹ کے جج صاحبان پر مشتمل عدالتی کمیشن بنایا اور انہیں تحقیقات سونپ دی۔
حیات اللہ کے چھوٹے بھائی احسان اللہ کے مطابق کمیشن نے خاندان کے افراد اور کئی سرکاری اہلکاروں کے بیانات کے بعد 32 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی جو کہ ان کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے مطابق انہیں حوالہ کرنا تھی لیکن 14 سال گزرنے کے باوجود ایسا نہ ہوسکا۔
‘وہ رپورٹ آج بھی گورنر ہاوس میں مقفل پڑی ہے جو کہ آزادی صحافت کے منہ پر طمانچہ ہے’ احسان اللہ نے کہا۔’
رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لئے پہلے ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہاں سے جواب ملا کہ فاٹا سے متعلق کیس کی سنوائی کرنا عدلیہ کے دائر اختیار میں نہیں۔ اب چونکہ انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کو عدالت کی توسیع ہوچکی ہے تو اس لئے چند دن پہلے پشاور ہائی کورٹ میں اس حوالے سے رٹ پٹیشن دائر کردی جسے سنوائی کے لئے منظور کر لیا گیا۔
کیس کی پیروی کرنے والے وکیل طارق افغان کا کہنا ہے کہ عدالت نے کیس کی پہلی سنوائی 21 مئی کو رکھی ہے جس میں وفاقی وزارت داخلہ اور خیبرپختونخوا کے داخلہ سیکرٹری سے جوابات طلب کئے گئے ہیں۔
سینئیر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس خیبرپخونخوا کے صدر شمیم شاہد نے عدالت کی جانب سے رٹ پٹیشن کی منظوری کو خوش آئند قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ عدالت اسے منظرعام پر ضرور لائے گی۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے شمیم شاہد نے کہا کہ یہ رپورٹ منظر عام پر آنے سے صحافیوں کو کسی حد تک اپنے تحفظ کا احساس ہوجائے گا۔
شمیم شاہد نے گزشتہ دو دہائیوں میں خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں 100 سے زائد صحافی شہید کئے گئے ہیں لیکن ایک کی بھی تحقیقات نہ ہوسکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں پر تشدد اور انہیں جان سے مارنے کے سب سے زیادہ واقعات خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد بلوچستان اور پھر سندھ کا نمبر آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں صحافیوں پر تشدد ہوتا تھا لیکن پھر بھی میڈیا تھوڑا بہت آزاد تھا لیکن آج کل یہ آزادی چھین لی گئی ہے۔ ‘حکومت میڈیا کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کمزور کر رہا ہے، پاکستانی ریاست اس سلسلے میں سعودی عرب اور چین کے ماڈلز اپنا رہا ہے جہاں پر میڈیا کے ہاتھ پیر کاٹ دئے گئے ہیں اور سب کچھ حکومتی مرضی سے نشر ہوتا ہے جس میں حکومت اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا’ شمیم شاہد نے خدشہ ظاہر کیا۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا انڈسٹری سے پچھلے کچھ عرصے میں ہزاروں ورکروں کو فارغ کرنا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور آنے والے دنوں میں میڈیا پر مزید قدغنیں لگنے اور حالات مزید گھمبیر ہونے کا خدشہ ہے۔
ایک جانب حکومت کی جانب سے جا بے جا پابندیوں اور چینلوں اور اخبارات سے آئے دن صحافیوں کو نکالنے کی وجہ سے میڈیا بہت محدود ہوکر رہ گیا ہے وہاں دوسری جانب قبائلی اضلاع میں حالات اس سے بھی ابتر ہیں۔
احسان اللہ خود بھی ایک صحافی ہیں لیکن گزشتہ چند مہینوں سے انہوں نے صحافت سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے کہ حالات کی خرابی کی وجہ سے انہوں نے دس سال خاندان کو پشاور منتقل کیا تھا اور کچھ عرصہ پہلے اس امید کے ساتھ واپس میر علی اپنے گھر آئے تھے کہ امن قائم ہوچکا ہے لیکن دہشت گردی کے دور والا منظر دوبارہ دیکھا جا رہا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے ریاست مخالف لوگ کھلے عام گھوم رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حیات اللہ کے قتل کے ایک سال بعد جب ان کی بیوہ نے عدالتی کمیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا تو وہ بھی اپنے ہی گھر میں ایک بم دھماکے میں قتل کی گئی جس کے بعد سے اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ حیات اللہ کے پانچوں بچوں کی بھی پرورش میرے ذمے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ میرے سایہ سے محروم ہوجائیں۔