خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

”ڈی آئی خان نادرا دفتر میں خواتین اب بلا جھجھک آتی ہیں”

خالدہ نیاز

‘ایک طرف خواتین قطار میں کھڑی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں تو دوسری جانب کچھ خواتین لان میں بیٹھی گپ شپ میں مصروف ہیں، اب کافی تعداد میں خواتین یہاں آتی ہیں جبکہ پہلے کم تعداد میں خواتین اس جگہ کا رخ کرتی تھیں’ یہ منظر ڈیرہ اسماعیل خان نادرا دفتر کا ہے جہاں خواتین کاونٹر فعال ہونے کے بعد اب خواتین بلاجھجھک آتی ہیں اور شناختی کارڈ بنواتی ہیں۔

ڈی آئی خان نادرا حکام کے مطابق اب روزانہ کی تعداد میں 160 خواتین شناختی کارڈ بنوانے آتی ہیں جبکہ پہلے بہت کم آتی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ خواتین کاونٹر فعال ہونے سے اب قبائلی خواتین کی آمد میں بھی 60 فیصد اضافہ ہوا ہے، خواتین بھی علیحدہ کاونٹر فعال ہونے پر خوش دکھائی دیتی ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کینٹ سے تعلق رکھنے والی ثنا نوشین نے اس حوالے سے بتایا کہ پہلے جب ڈی آئی خان نادرا دفتر میں خواتین کے لیے علیحدہ کاونٹر فعال نہیں تھا تو جو خواتین دور دراز اور دیہاتی علاقوں سے آتی تھیں ان کو پردہ ہٹانے میں بھی مشکلات درپیش ہوتی تھیں کیونکہ وہاں پر مرد حضرات ہوتے تھے لیکن اب وہ آسانی کے ساتھ کارڈ بنوانے آتی ہیں کہ اب کاونٹر کےساتھ سٹاف بھی خواتین ہی پر مشتمل ہے۔

انہوں نے کہا ‘پہلے خواتین کو شناختی کارڈ کے حصول میں کافی مشکلات کا سامنا ہوتا تھا لیکن اب علیحدہ کاونٹر ہونے کی وجہ سے ان کو آسانی سے شناختی کارڈ مل جاتا ہے’ انہوں نے بتایا کہ بعض خواتین کو تصویر نکالنے میں بھی مسائل درپیش ہوتے تھے لیکن اب وہ مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے اور اب خواتین شناختی کارڈ بنوانے کے حوالے سے مطمئن ہوگئی ہیں۔

خواتین کاونٹر میں سارا عملہ بھی خواتین کا ہے اور 10 خواتین سٹاف کے طور پر کام کر رہی ہیں جبکہ خواتین کے لیے پردے کا انتظام ہونے کے ساتھ ساتھ واش رومز، پینے کے پانی، نماز کے لیے جگہ اور لان بھی موجود ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق ڈی آئی خان سٹی میں نادرا دفتر میں خواتین کے لیے علیحدہ سیکشن 2010 میں بنایا گیا تھا تاہم فعال نہیں تھا اور 2018 میں عام انتخابات کے بعد فعال کر دیا گیا۔

نہ صرف ثنا نوشین خواتین کے لیے علیحدہ کاونٹر فعال ہونے پر خوش ہیں بلکہ باقی خواتین نے بھی اس اقدام کو سراہا ہے۔ سوشل ورکر بشریٰ محسود نے بھی اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ اس سے خواتین کے کافی مسائل حل ہو گئے ہیں۔

بشریٰ محسود نے کہا ‘ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ مرد اور خواتین کے لیے علیحدہ کاونٹر نہیں ہوتے تھے تو مرد آگے نکل جاتے تھے جبکہ خواتین شرم و حیا اور پشتون روایات کی وجہ سے پیچھے رہ جاتی تھیں اور گھنٹوں نہیں بلکہ کئی کئی دنوں تک شناختی کارڈ بنوانے کے لیے نادرا کے دفتر کا چکر لگاتی تھیں اور پھر بھی ان کے شناختی کارڈ نہیں بنتے تھے کیونکہ دفتری اوقات ختم ہو جاتے تھے لیکن خواتین کی باری نہیں آتی تھی لیکن اب خواتین کا علیحدہ کاونٹر ہے جہاں وہ آسانی سے جا کر اپنی باری سے شناختی کارڈ بنوا لیتی ہیں’

انہوں نے کہا کہ بہت ساری خواتین مسائل اور مشکلات کی وجہ سے شناختی کارڈ بنواتی ہی نہیں تھیں کہ ان کو لگتا تھا کہ وہاں جا کر ایک تو مرد ہوں گے دوسرا یہ کہ دھکے کھانے کے باوجود بھی ان کی باری نہیں آئے گی اور ان کا شناختی کارڈ ہفتوں تک نہیں بننے والا۔

بشریٰ محسود نے کہا کہ جنوبی وزیرستان سے بھی خواتین بدامنی کے دوران ڈی آئی خان منتقل ہوئی ہیں اور علیحدہ سیکشن ہونے کی وجہ سے ان کو بھی شناختی کارڈ بنوانے میں آسانی مل گئی ہے اور وہ بھی بلاجھجھک کافی تعداد میں ڈی آئی خان نادرا دفتر سے اپنے شناختی کارڈ بنوا رہی ہیں۔

ڈی آئی خان سٹی سے تعلق رکھنے والی مقامی تنظیم آواز ڈسٹرکٹ فورم کی ممبر فرحت نے اس حوالے سے بتایا کہ پہلے خواتین لائنوں میں کھڑی ہوتی تھیں اور گھنٹوں تک انتظار کرتی تھیں اوران کو مشکلات کا سامنا ہوتا تھا لیکن اب علیحدہ کاونٹر فعال ہونے کی وجہ سے ان کی یہ مشکل دور ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ خود ایک سیاسی اور سماجی ورکر ہیں اور خواتین کے لیے علیحدہ کاونٹر فعال ہونے کے حوالے سے عمر اصغرخان ڈیویلپمنٹ فاونڈیشن کے ساتھ مل کر آواز اٹھائی تھی جس کے بعد نادرا دفتر ڈی آئی خان میں جنرل الیکشن 2018 سے پہلے خواتین کے لیے علیحدہ کاونٹر فعال کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مقامی افراد سے ملاقاتوں اور ان کے مسائل سننے کے بعد ان کو پتہ چلا کہ نادرا دفتر میں خواتین سیکشن فعال نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے جس کے بعد انہوں نے نادرا حکام جمیل اور حاجی شکیل سے ملاقاتیں کیں اور اس مسئلے کو اٹھایا اور 2018 میں خواتین کے لیے علیحدہ سکیشن فعال ہو گیا۔

نادرا دفتر میں کام کرنے والے احسن نے بجٹ کے حوالے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین سیکشن کے لیے علیحدہ کوئی بجٹ نہیں رکھا گیا البتہ ان کی جو بھی ضروریات ہوتی ہیں اس حوالے سے متعلقہ حکام تک پہنچائی جاتی ہیں جس کے بعد وہ سامان وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈی آئی خان نادرا دفتر کی اپنی کوئی عمارت نہیں ہے اور کرایے کی جگہوں میں کام کرتے ہیں اور وہ جس عمارت کو بھی کرایہ کے طور پر لیتے ہیں تو وہاں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ خواتین کے الگ سیکشن کے لیے بھی انتظام موجود ہو۔

انہوں نے کہا کہ خواتین سیکشن کے لیے جس سامان کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کی لسٹ بنا کر ٹیکنیکل آفیسر کو بھیج دیتے ہیں اور پھر پشاور ہیڈ کوارٹر سے منظوری ملنے کے بعد ان کو سامان پہنچا دیا جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button