شہید پولیس اہلکاروں کے بچوں کو پولیس میں تاحال بھرتی نہیں کیا جاسکا
ذیشان کاکاخیل
وعدوں پہ وعدے شہید پولیس اہلکاروں کے بچوں کو تاحال شہداء پیکیج کے تحت پولیس میں بھرتی نہیں کیا جا سکا۔ کئی بار احتجاج کرنے کے باوجود صوبے کے سینکڑوں شہداء کے بچوں کو پولیس میں بھرتی کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ بیشتر شہید پولیس آفیسرز کے خاندانوں کو تو تاحال امداد بھی نہیں دی گئی ہے۔ ان میں شہید ایس پی طاہر داوڑ بھی شامل ہے جن کے خاندان کو 11 کروڑ روپے دینے کا وعدہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے تو کیا مگر 2 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کو ہے مگر تاحال ان کی خاندان کی مالی معاونت نہیں کی جاسکی۔
شہید طاہر کی 5 بیٹاں اور 2 بیٹے ہیں،ان کا بڑا بیٹا 23 سال کا ہے جو ایم اے پولیٹیکل سائنس کا ڈگری ہولڈر ہے لیکن ایک ہاتھ سے معذور ہونے کی وجہ سے کسی بھی کام کاج کرنے سے قاصر ہے۔طاہر کے بھائی کے مطابق انہیں اپنے گھر کے ساتھ ساتھ شہید طاہر کے گھر کو بھی چلانا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ان کے مطابق اگر انہیں حکومتی امداد مل گئی تو انہیں بھائی کا گھر بار اور ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں آسانی پیدا ہو جائے گئی۔
ان کے مطابق حکومت نے وعدے تو بہت کئے مگر عملی طور پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا جس سے شہید طاہر داوڑ کی خاندان کی مشکلات کم ہو سکے،ان کے مطابق یہ امتیازی سلوک صرف ان کے ساتھ نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ان جیسے سینکڑوں پولیس اہلکار ہیں جنہوں نے جنگ کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ان کے مطابق اس دھرتی کے مرد تو مرد خواتین نے بھی اس کی بقاء کے لئے کبھی جان کا نذرانہ دینے سے دریغ نہیں کیا جب بھی ملک کی خاطر قربانی دینی پڑی تو جہاں مردوں نے ان کا ڈٹ کا مقابلہ کیا تو وہی خواتین بھی اس کا شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہیں۔
ایسی ہی بہادری اور شجاعت کا مثال بنی نوشہرہ کے علاقے پیرپیائی سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ شہید پولیس کانسٹیبل شازیہ ۔ شازیہ نے ملک کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کی اورخیبرپختونخوا کی پہلی شہید پولیس کانسٹیبل ہونے کا اعزاز اپنے حاصل کر کے نہ صرف اپنے خاندان کا نام سر سے بلند کیا بلکہ وہ پورے ملک کی خواتین کے لئے بہادری کی ایک مثال بن گئی ہیں،شہید شازیہ نے اپنے چچا کو شہید ہونے اور والد جو پاک آرمی سے ریٹائرڈ ہیں کی خدمات سے متاثر ہونے کے بعد پولیس جوائن کیا،19 سال کی عمر میں پولیس جوائن کرنے والی قوم کی بہادربیٹی نے جب پولیس جوائن کیا تو اس وقت دہشتگردی سر چڑھ کر بول رہی تھی،بم دھماکے روز کا معمول تھا،شازیہ نے 2005 میں ملک کی خاطر قربان ہونے کی عرض سے پولیس کو جوائن کیا اور 5 سال تک اپنی خدمات جاری رکھی۔
شازیہ 10 مئی 2010 کو اپنے نو ماہ بیٹے زین کو دادی کے ہاتھوں میں چھوڑ کر ڈیوٹی کو نکلیں،شازیہ کو کیا پتہ تھا کہ آج ان کی زندگی کا آخری دن ہوگا،جیسے ہی شازیہ اپنی ڈیوٹی کے مقام نوشہرہ سیشن کورٹ پہنچی تووہاں پرکچھ دیر بعد ایک برقہ پوش عورت نے وکلاء کو نشانہ بنانے کے غرض سے حملہ کرنے والی ہی تھی کہ شازیہ گل نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اس کو روک لیا،اور روکتے ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا جس سے گہرام مچ گیا،دھماکہ کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق جبکہ دس زخمی ہوئے،خودکش حملہ آور اگر سیشن کورٹ پہنچاتا تو کئی قیمتی جانوں کی ضائع کا خدشہ تھا،لیکن شازیہ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اپنی جان کی پروا کئے بغیر ہی انہیں روک لیا اور یوں سینکڑوں افراد کی خاطر قربانی دی۔شازیہ کا 9 ماہ کا بیٹا جہاں اپنی ماہ کی بہادی پر بڑا ہوکر فخر کرے گا تو وہی وہ خیبرپختونخوا کی ان خواتین کے لئے بھی ایک مثال بن گئی جو گھر سے باہر نہیں نکلتی اور نہ ہی ان کو گھر سے نکلنے کی اجازت دی جاتی ہیں۔
شہید پولیس کانسٹیبل شازیہ کو اپنے ملک کی خاطر قربان ہونے کا جذبہ اس قدر کہ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی راشد اور چھوٹی بہن رابیہ کو بھی پولیس میں بھرتی کروایا۔ شازیہ تو اب اس دنیا میں نہیں رہی لیکن ان کی بہادری کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد اور خواتین نے بھی پولیس کو جوائن کر لیا ہے اور اب تو حکومت نے خواتین ایلیٹ فورس بھی قائم کر دیا ہے، جہاں پر خواتین کو اس قدر سخت تربیت دی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف کسی بھی ناخوشگوار واقع سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ وہ بھاری اسلحہ چلانے اوربم ناکارہ بنانے سمیت دیگر حساس کام کرنے کی بھی قابل ہے۔
امن کی قیام کے لئے صرف شازیہ ہی نہیں بلکہ کئی گھر کے سربراہوں اور کئی بچے اپنے سر کا سایہ سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوئے،خیبرپختونخوا کے 25 اضلاع میں کوئی ایسا ضلع نہیں جہاں پر پولیس نے قربانی نہیں دی ہو۔محکمہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 49 سالوں کے دوران یعنی سال 1970 سے لیکر سال 2019 تک مخلتف واقعات میں 17 سو 26 پولیس اہلکاروں نے جان کے نذرانے پیش کئیں،اس لئے تو کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہیں۔
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھِلے، وہ کھِلا رہے صدیوں
یہاں خِزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
ملک دشمنوں کو خاک میں ملانے میں پشاور کے پولیس نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ،محکمہ پولیس کے سالانہ رپورٹ کے مطابق 1970 سے اب تک پشاور میں مجوعی طور پر 482 پولیس اہلکار شہید ہوئے،بنوں میں 194،ڈی آئی خان میں 164،سوات میں 128،مردان اور کوہاٹ میں 95 جبکہ چارسدہ میں94 پولیس اہکاروں نے جان کے نذرانے پیش کئیں۔اسی طرح ہنگو میں 74،ہری پور، تورغر میں 10،10بٹگرام،کوہستان میں 7،7 نوشہرہ میں 38،صوابی میں 44،لکی مروت میں 33،ٹانک میں 26،بونیر میں 39،دیر اپراورلوئرمیں 89 جبکہ چترال میں 9 اہلکار شہادت کے عہدے پر فائز ہوئے۔چاہے ایڈیشنل آئی جی پی ہو یا پھر کانسٹیبل کوئی ایسا اہلکار نہیں جہنوں نے دوسروں کو بچانے کی خاطر اپنی زندگی قربان کی،مجموعی طور پر 2ایڈیشنل آئی جی پیز،2 ڈی آئی جیز،1 اے ایس پی،2 ایس پیز، 19 ڈی ایس پیز،31 انسپکٹرز،137ایس آئی،130 اے ایس آئیز، 161 ہیڈ کانسٹیبل اور1240 ایف سی افراد نے جام شہادت نوش کی ہے۔
محکمہ پولیس کی ایک اور خاتون پولیس آفیسر روزیہ الطاف ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر ایلیٹ فورس پشاور نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ پولیس کی نوکری بہت سخت ہے لیکن اپنی پہاڑ جیسے جذبے کی وجہ سے وہ اس میں با خوشی کام کر رہی ہیں،ان کے مطابق جب جزبہ سچا ہو تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا،وہ پہلی خاتون ہیں جو ڈی ایس پی ایلیٹ فورس تعینات ہوئی اور اس پوسٹ پر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنی ڈیوٹی بااحسن طریقے سے انجام دے رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق افغان جنگ کے بعد سال 2007 ء سے ملک بھر میں دہشت گردی کی وجہ سے اب تک اعدادوشمار کے مطابق 70ہزار سے افراد نے شہادت نوش کی ہیں اور اس جنگ میں عام شہریوں نے جان قربان کی تو وہی پولیس اہکاروں نے دہشت گردی کی جنگ میں اپنی جان ملک کے لئے قربان کر چکے ہیں اور اس جنگ نے جہاں ہمارے قوم سے شازیہ جیسی بہادر بیٹیاں چھین لی تو وہی روزیہ الطاف جیسی بہادر خواتین کو جرت اور حوصلہ دیا اور ان میں بھی ملک و قوم کی خاطر قربانی کے عہدے پر فائز ہونے کے جذبے سے سرشار کیا۔
وزیر اعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے شہداء کی خاندانوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک بار پھر صوبے کے پولیس شہداء کے بچوں کو پولیس میں بطور سب انسپکٹر بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،جبکہ ذرائع کے مطابق وزیر اعلی نے اس کی باقاعدہ منظوری بھی دے دی ہے۔ذرائع کے مطابق متعلقہ ایکٹ میں آرڈنینس کے ذریعے ترامیم بھی کر دی گئی ہیں۔ان ترامیم کے تحت پہلے مرحلے میں 196 پولیس شہداء کے بچوں کو صوبائی پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی کیا جائے گا۔ اس پر جب شہداء کے خاندانوں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلی کا یہ اقدام قابل ستائش ہے اگر اس پر عملی کام ہو ان کے مطابق اس سے قبل بھی ان کے ساتھ کئی بار وعدے کئے گئے مگر کوئی وعدہ ایفا نہ ہوا۔