”افغان مہاجرین کا اس لاک ڈاؤن کے دوران پوچھنے والا کوئی نہیں”
افتخار خان
"افغان مہاجرین کیمپوں میں رہنے والے کچھ خاندان آج کل صرف ایک وقت کی خوراک پر مزدوری تلاش کر رہے ہیں لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ بھی نہیں مل رہی۔” حال ہی میں پشاور کے خزانہ مہاجر کیمپ کا دورہ کرنے والے سماجی کارکن فیاض علی نور نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث نافذ لاک ڈاؤن نے مہاجرین کی زندگی اجیرن کردی ہے جن کی حالت اپنی حکومت پوچھ رہی ہے نہ پاکستان کی حکومت اور نہ ہی اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے اب تک اس سلسلے میں ان سے کسی طرح کا کوئی رابطہ کیا ہے۔
اس کیمپ کی 1200 سے زائد آبادی ہے جس میں 700 تک خواتین اور بچے ہیں۔ سماجی کارکن نے کہا کہ کیمپ کے زیادہ تر مرد پبلک ٹرانسپورٹ (ڈرائیور) یا اسی طرح کی محنت مزدوری سے وابستہ ہیں اور پچھلے تقریباً چار ہفتوں سے بے روزگار ہیں۔
‘ان گھرانوں کے پاس جمع پونجی اور راشن سب ختم ہو گیا ہے اور اب سب سے بڑا اندیشہ یہ ہے کہ شیرخوار بچوں کی صحت پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے کیونکہ نہ تو ماؤں کو اچھی خوراک مل رہی ہے اور نہ ہی ان بچوں کی غذائی ضرورت پوری ہو رہی ہے۔’ فیاض علی نوری نے کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ لوگ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا احساس پروگرام کے تحت حکومت پاکستان سے امداد لینے کے اہل نہیں اس لئے ان کی نظریں افغان کمشنریٹ اور یو این ایچ سی آر پر تھیں لیکن چند دنوں سے کورونا وائرس کی وجہ سے وہ دفاتر بھی بند پڑے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ خزانہ کیمپ کو آج تک کسی فلاحی ادارے کی جانب سے بھی کوئی امداد نہیں مل سکی ہے۔
فیاض علی کی کوششوں کے باوجود کیمپ کے کسی بھی فرد نے میڈیا پر اپنے مسائل بتانے کیلئے حامی نہیں بھری اور سب کا یہی خیال تھا کہ ایسا کرنے سے بعد میں افغان قونصلیٹ اور یو این ایچ سی آر کے مقامی افسران ان سے خفا ہوں گے اور پھر دیگر مسائل بھی نہیں سنیں گے۔
یہی خیال ایک دوسرے سماجی ورکر ڈاکٹر سہیل کا بھی ہے جنہوں نے ابھی حال ہی میں چارسدہ میں رزڑ اور اتمانزئی افغان مہاجرین کیمپوں کا دورہ کیا ہے۔
ڈاکٹر سہیل کہتے ہیں کہ کیمپس میں حالات بہت ابتر ہیں لیکن رہائشی کسی کو کچھ بتانے سے ہی ڈر محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر فوری طور پر ان کیمپوں کے رہائشیوں کے لئے راشن وغیرہ کا بندوبست نہیں کیا گیا تو خدانخواستہ بھوک اور کمزوری سے بہت بچوں کی جانیں جا سکتی ہیں۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں قائم کل 43 کیموں میں 14 لکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین مقیم ہیں اور اتنی ہی تعداد غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی بھی بتائی جاتی ہے، ان پناہ گزینوں کی اکثریت تجارت اور کاروبار سے وابستہ جبکہ یومیہ یا ماہانہ اجرت پت کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
پشاور اور چارسدہ کے کیمپوں کے رہائشیوں کے برعکس نوشہرہ اور خیرآباد کیمپ کے عبدالقیوم نے اس موضوع پر ٹی این این سے کھل کر بات کی۔
عبدالقیوم کئی دہائیوں سے اس کیمپ میں رہائش پذیر ہیں اور نہ صرف اپنے کیمپ بلکہ نزدیک کنڈ کیمپ کے سینکڑوں لوگوں کی بھی مختلف فورمز پر نمائندگی کرتے ہیں۔
عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے افغان مہاجرین کے مسائل اس لئے بھی زیادہ ہیں کہ ان لوگوں کے پاس نہ تو بینکوں میں پیسے ہوتے ہیں اور نہ گھروں میں نقد پیسے رکھتے ہیں بلکہ ان میں جو صاحب ثروت ہیں ان کا سرمایہ بھی دوسرے لوگوں اور باالخصوص دوکانداروں کے پاس پھنسا ہوتا ہے۔
‘اب پاکستان میں افغان لوگوں کو بینک اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں جبکہ باقی سارے اپنا سرمایہ کہیں نہ کہیں لگا دیتے ہیں۔’ عبدالقیوم نے کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ کیمپ کے بعض صاحب ثروت لوگوں نے پہلے پہل اپنے عزیزوں اور ہمسائیوں کی مالی اعانت کی اور انہیں راشن بھی مہیا کیا لیکن لاک ڈاؤن کے طویل ہونے کے باعث وہ لوگ بھی اب پیسے خرچ کرنے میں احتیاط کر رہے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ کہیں ان کے اپنے خرچے کے لئے پیسے ختم نہ ہو جائیں۔
مزید پڑھنے کیلئے:
پاکستان میں افغان مہاجرین کے چالیس سال مکمل
‘تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی’
رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کا عمل عارضی طور پر معطل
انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے فوراؑ بعد صرف ان لوگوں کو مشکلات پیش آ رہی تھیں جو کیمپ سے باہر کام کیلئے جاتے تھے اور کیمپ کے اندر مزدوری کرنے والوں کو دیہاڑی مل جاتی تھی لیکن جیسے ہی لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھ رہا ہے کیمپ کے اندر بھی کام ناپید ہو چکا ہے اور لوگوں نے پیسہ خرچ کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔
افغان مہاجرین کے نمائندہ نے کہا کہ دس بارہ دن پہلے افغان کمشنریٹ نے ان سے کیمپ کے رہائشیوں کی تفصیلات جمع کی تھیں اور انہیں امید تھی کہ جلد ہی کمشنریٹ اور یو این ایچ سی آر کی جانب سے ان کے لئے امداد پہنچ جائے گی لیکن لسٹیں جمع کرانے کے بعد کسی قسم کی کوئی خبر نہیں آئی۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ افغان کمشنریٹ تو پھر بھی ان کا حال احوال پوچھتی ہے لیکن افغان قونصلیٹ نے ان سے بالکل منہ پھیر لیا ہے اور ان سے ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے یہ افغانستان کے شہری نہیں بلکہ دشمن ہوں۔