‘ہمارے علاقے کی خواتین کورونا وائرس کی موجودگی سے ہی انکاری ہیں’
خالدہ نیاز
ضلع خیبرکی تحصیل لنڈی کوتل میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد مقامی انتظامیہ نے پانچ سو دوکانوں پر مشتمل مقامی بازار بند تو کردیا ہے لیکن اس کے باوجود بازاروں میں رش نظرآرہا ہے اور لوگوں کی اکثریت اس حکومتی اقدام پر ناخوش دکھائی دے رہی ہے۔
کیا وجہ ہے کہ انہی کی بھلائی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر لوگ تنقید کر رہے ہیں اس بارے میں لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والا سماجی کارکن عامر آفریدی کہتا ہے کہ ایسا صرف ان میں اس خطرناک وائرس کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
عامر آفریدی نے کہا کہ ان کے علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں آگاہی نہیں ہے اورٹی وی اور اخبار بھی زیادہ لوگ نہیں دیکھتے اور یوں لوگ اس مہلک وائرس سے بے خبرہیں اور وہ چاہ کربھی سب لوگوں میں آگاہی کے حوالے سے کوئی مہم نہیں چلاسکتے۔
انہوں نے کہا ‘ یہاں حکومت نے جلسوں وغیرہ پر پابندی لگائی ہے اور رہی بات سوشل میڈیا کی تو وہ تو یہاں کام ہی نہیں کرتا تو ایسے میں ہم لوگوں کو اس حوالے سے شعور نہیں دے سکتے کہ کورونا وائرس نے کس طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں رکھا ہے اور یہ کس قدر خطرناک وائرس ہے، جب پاکستان میں کورونا وائرس پھیلا تو ہم نے حکومت سے اپیل بھی کی کہ مختصر وقت کے لیے سہی لیکن قبائلی اضلاع میں تھری جی اور فور جی کی سہولت مہیا کریں کہ اس طرح لوگوں میں کورونا وائرس سے آگاہی آسکے’
رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت حاصل کردہ معلومات کے مطابق ابھی تک ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے 5 افراد جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جن میں سے تین صحتیاب ہوکر گھر جاچکے ہیں۔
کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں لنڈی کوتل کے علاقے شخمل خیل کا شیرزرین بھی شامل ہے۔ 24 مارچ کو شیر زرین کا پشاور سروسز پولیس ہسپتال میں ٹیسٹ ہوا لیکن محکمہ صحت اور سول انتظامیہ نے غفلت کا مظاہرہ کیا اورآئسولیشن میں رکھنے کے بجائے ان کو گھر بھیج دیا اور نتیجہ آنے پر اس میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جس کے بعد ان پشاور پولیس سروسز ہسپتال میں داخل کردیا گیا اورعلاقے کو بھی قرنطین کردیا گیا ہے۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع خیبرکی آبادی 986973 ہے اور اس میں تین تحصیلیں ہیں، باڑہ، جمرود اور لنڈی کوتل۔ لنڈی کوتل پشاور سے قریبا 45 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔
لنڈی کوتل کا علاقہ پاک افغان طورخم بارڈر کے قریب واقع ہے اور یہاں کورونا وائرس پھیلنے کا خدشہ بھی زیادہ ہے کیونکہ ایک طرف یہاں افغانستان کا بارڈر واقع ہے تو دوسری طرف اس علاقے کے لوگ ملک کے مختلف حصوں میں روزگار کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں تھری جی اور فور جی بھی کام نہیں کرتا جس کی وجہ سے لوگوں میں کورونا وائرس کے حوالے شعور کی کمی دکھائی دیتی ہے۔
اگر ایک طرف لوگوں میں اس حوالے شعور کی کمی ہے تو دوسری طرف مقامی ذرائع کے مطابق انتظامیہ خیبرمیں داخل ہونے والے افراد کی سکریننگ میں مکمل طور پرناکام ہوچکی ہے۔ مقامی صحافی کے مطابق گزشتہ دنوں درجنوں افراد لاہور سے ٹرکوں کے اوپر تارپل چادر چڑھا کر خاموشی سے لنڈی کوتل شنواری اور شلمان آئے ہیں جن کی کوئی سکریننگ نہیں ہوئی ہے اور ان افراد نے باقاعدہ مقامی مارکیٹوں میں سودا سلف لیا ہے۔
ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تقریباً 106 افراد عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد لنڈی کوتل کے مختلف علاقوں میں آئے ہیں جن کے بارے میں ہدایت کی گئی تھی کہ ان کو گھروں میں کوارنٹین کیا جائے تاہم حجاز مقدس سے آنے والے افراد کھلے عام علاقے میں گھومتے پھرتے ہیں اور لوگوں سے ملتے بھی ہیں جن کی کوئی نگرانی نہیں کی جارہی۔
دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنرلنڈی کوتل محمد عمران نے کہا ہے کہ ضلع خیبرکے تمام داخلی راستوں پر کسی کو بھی سکریننگ کے بغیر داخل نہیں ہونے دیا گیا اوراب بھی مختلف مقامات پرسکریننگ کی جارہی ہے جبکہ باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دی گئی ہے جو ایسے افراد کا ڈیٹا جمع کرتی ہے جن کی کوئی ٹریول ہسٹری ہوتی ہے تاکہ انکی نگرانی کی جاسکے۔
اسی طرح تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والی طالبہ آسیہ بی بی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے علاقے کے لوگ اور خاص طور پرخواتین اس وائرس کی موجودگی سے ہی انکاری ہے جس کی بنیادی وجہ ان میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی ہے۔
‘ہمارے علاقے میں زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہے، لوگ کورونا وائرس کے خطرے سے بالکل بے خبرہے وجہ یہ ہے کہ یہاں انٹرنیٹ تھری جی اور فورجی کی سہولت نہیں ہے لیکن اب یہاں کے لوگوں میں آگاہی کی بہت ضرورت ہے کیونکہ کورونا وائرس بہت خطرناک ہے اور بے احتیاطی کی صورت میں کئی افراد اس سے متاثر ہوسکتے ہیں’ آسیہ بی بی نے وضاحت کی۔
واضح رہے کہ باڑہ میں بھی کورونا وائرس کا ایک کیس رپورٹ ہوا ہے لیکن خوش قسمتی سے وہ صحت مند ہوکر گھر بھی جاچکا ہے۔ تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ عادل رحمان میں چند روز قبل کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی جو حال ہی میں ہسپتال سے گھر منتقل ہوچکا ہے۔ چاربچوں کے باپ عادل رحمان کو کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد پشاور کے پولیس سروسزہسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں چند دن گزارنے کے بعد اس کو ڈسچارج کردیا گیا۔
عادل رحمان نے کہا ‘ میں خود بھی کورونا وائرس کا شکار تھا لیکن اب ٹھیک ہوگیا ہوں اللہ کے فضل اور کرم سے، کورونا وائرس سے لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ احتیاظی تدابیر اپنائیں’
عادل رحمان میں کورونا وائرس کی تصدیق کیسے ہوئی اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہیں کا سفرنہیں کیا تاہم پہلے سات آٹھ دن ان کو سانس لینے میں تکلیف ہوئی اور سینہ خراب ہونے کے ساتھ ان کے گلے میں بھی انفیکشن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام تکالیف کے ساتھ ساتھ ان کو مسلسل تین چار روز تک تیز بخار بھی رہا اور وہ مقامی ڈاکٹر کے پاس گئے لیکن زیادہ بخار ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر نے ان کو انجیکشن نہیں لگایا جس کے بعد پشاور میں پرائیوٹ ہسپتال ملیریا کے ٹیسٹ کے لیے گئے جہاں سے ان کو پشاور پولیس سروسز ہسپتال ریفرکیا گیا اور وہاں ان کا کورونا ٹیسٹ کیا گیا اور رزلٹ آنے پر ان کو بتایا گیا کہ ان کو کورونا وائرس ہوگیا ہے۔
عادل رحمان نے علاج کے حوالے سے کہا کہ ان کوڈاکٹرز بخار کم کرنے کے لیے روزانہ پیناڈول اور پیراسیٹامول ٹیبلیٹ دیتے تھے جبکہ تازہ پھل اور سبزیاں کھانے کا مشورہ دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دوران علاج ڈاکٹرز نے ان کو بروفین کی گولیاں کھانے سے منع کرتے تھے۔
ماہرین کا ماننا ہےکہ کووڈ-19 کے مریضوں میں تیز بخار، خشک کھانسی، سانس لینے میں دشواری کے ساتھ ساتھ سونگھنے اور ذائقہ محسوس کرنے کی حس متاثر ہونے کی علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس سے اب تک 16 افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں جبکہ 405 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
حکومتی اقدامات کے حوالے سے سوشل ورکرعامر آفریدی نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لنڈی کوتل میں پہلے ہی سے سہولیات کا فقدان ہے جب مریض زیادہ سریس ہوجاتے ہیں تو ان کو پشاور ریفرکیا جاتا ہے تو ایسے میں وہاں کورونا کے مریضوں کے لیے کیا سہولیات ہوسکتی ہے؟
دوسری طرف ضلع خیبرکے ڈپٹی کمشنر محمود اسلم وزیر کے مطابق ‘ملک کے دوسرے حصوں کی طرح خیبرمیں بھی کورونا سے نمٹنے کے لیے قرنطینہ سنٹرز قائم کیے گئے ہیں،’ باڑہ میں 116 بیڈ پرمشتمل، لنڈی کوتل میں 30 بیڈ اور تیراہ میں 30 بیڈ پرمشتمل قرنطینہ سنٹر بنائے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو ہمارے پاس پلان موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ باڑہ، جمرود اور لنڈی کوتل میں ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز بھی تیار کیے ہیں اور ان کو 150 تک پہنچائیں گے۔
آئسولیشن وارڈز میں سہولیات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضلعی صحت افسر طارق حیات نے بتایا کہ جان بچانے والی ادویات کے ساتھ ساتھ آئسولیشن بیڈز اور طبی عملہ بھی ہر وقت وارڈ میں موجود ہوتا ہے۔ کونسے مریضوں کو مشتبہ قرار دیا جاتا ہے اس حوالے سے طارق حیات نے کہا کہ سانس لینے میں دشواری، بخار، زکام، کھانسی، جسم میں درد اور کسی تصدیق شدہ مریض کے ساتھ واسطہ رکھنے والے افراد کو مشتبہ ٹھہرایا جاتا ہے اور ان کا کورونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس چین کے شہر ووہان سے پھیلا تھا جہاں تین ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی اور وہاں اب اس وائرس کافی حد تک پرقابو پالیا گیا ہے تاہم یہ وائرس اب پوری دنیا تک پھیل چکا ہے اور دنیا بھر میں کورونا وائرس کے مصدقہ کیسز 12 لاکھ 74 ہزار سے زائد ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد 69 ہزارسے زیادہ ہو گئی ہے جبکہ دو لاکھ 60 ہزار سے زائد صحتیاب بھی ہوچکے ہیں۔
کورونا وائرس پھیلنے کو روکنے کے لیے جہاں ضلع خیبر کی مقامی انتظامیہ نے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کیا ہے وہیں پر پاک افغان طورخم بارڈر کو بھی 16 مارچ سے بند کیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ضلع خیبر محمود اسلم وزیر کے مطابق اس دوران پیدل امدورفت کے علاوہ تجارتی سرگرمیاں بھی معطل رہیں گی۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق اس بارڈر پر روزانہ اوسطاّ 8 ہزار مسافر اور 7 سو مال بردار گاڑیاں آتی جاتی ہیں۔
اگرچہ ضلع خیبر کے زیادہ ترلوگ کورونا وائرس کے حوالے سے شعور نہیں رکھتے تاہم چند افراد ایسے بھی ہیں جو نہ صرف اس سے باخبر ہیں بلکہ انہوں نے احتیاطی تدابیر بھی اپنائی ہے۔
26 سالہ مہران آفریدی خود ایک صراف ہیں اور لنڈی کوتل میں رہائش پذیر ہے انہوں نے کہا کہ وائرس پھیلنے کے بعد انہوں نے اپنی کاروباری سرگرمیوں کو محدودو کردیا ہے، زیادہ تروقت گھر میں گزارتے ہیں اور صفائی کا بھی خیال رکھتے ہیں، بازار جانا بھی بند کردیا ہے۔ انہوں نے بھی گلہ کیا کہ علاقے میں تھری جی اور فور جی کی سہولت نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کئی گھنٹے بجلی بھی غائب رہتی ہے جس کی وجہ لوگ اس وائرس کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتے۔
ڈپٹی کمشنر خیبرمحمود اسلم وزیر نے بتایا کہ پکنک سپاٹس اور بازاروں کو بند کرکے وہاں لوگوں کے آنے جانے پرپابندی عائد کردی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ضلع خیبرکے تمام داخلی راستوں پرسکریننگ کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔
لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیوں سے متعلق سوال کے بارے میں محمود اسلم وزیر کا کہنا تھا کہ یہ میڈیا کا بھی فرض ہے اور ہمارا بھی فرض ہے کہ بہت سارے لوگ نہیں سمجھتے جنہیں ہم سمجھائیں گے، اب ہم راستے بند کر رہے ہیں، اورکزئی، کرم اور باڑہ سے تیراہ کے روابط منقطع کر دیئے ہیں باقی راستے بھی بند کر رہے ہیں، انتہائی ایمرجنسی یا خوراک کی گاڑیوں کو ہی جانے دیا جائے گا اور کسی کو اجازت نہیں ہو گی۔
پاکستان میں مجموعی طور پر کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 3278 تک پہنچ گئی ہے جبکہ خیبرپختونخوا سمیت 50 افراد اس مہلک وائرس کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 150 سے زائد افراد صحتیابی کے بعد گھروں کو جاچکے ہیں۔
اگرچہ کورونا کے حوالے سے خیبرکے عوام میں آگاہی کم دکھائی دے رہی ہے تاہم خیبرپختونخوا حکومت اس حوالے سے متحرک دکھائی دیتی ہے، 25 مارچ 2020 کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے بھی ضلع خیبرکا دورہ کیا اور لنڈی کوتل ہسپتال کو کیٹیگری اے درجہ دینے سمیت کورونا وائرس کے پیش نظر ہسپتال کو 4 وینٹی لیٹرز اور تین ایمبولینس دینے کا اعلان کیا۔