موجودہ صورتحال سے صحافی کس طرح نبرد آزما ہیں؟
خالدہ نیاز
کورونا وائرس کی وبا نے جہاں ہزاروں افراد کی جان لی ہے اور لاکھوں کو جسمانی طور پرمتاثر کیا ہے وہیں پر اس وائرس کی وجہ سے بنے غیر یقینی اور خوف کے صورتحال نے لوگوں کو ذہنی دباؤ میں بھی مبتلا کردیا ہے۔
عام لوگوں کی نسبت ان خواتین اور حضرات کے ذہنی مزید بڑھ گئے ہیں جن کا کورونا متاثرین سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے جن میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس سمیت میڈیا ورکرز بھی شامل ہیں۔
صحافی خواتین و حضرات اس عالمی وبا کے خلاف جنگ میں لوگوں کو اگاہی دینے کے لئے فرنٹ لائن پر کھڑے تو ہیں لیکن اس جنگ میں خود انہیں نہ صرف اس وائرس کے وار کا جسمانی طور پر خطرہ ہے بلکہ مسلسل ڈر اور خوف کی رپورٹنگ کرنے اور ہر وقت ایسی ہی خبروں کی مانیٹرنگ کرنے سے ان کے ذہنوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رفت انجم پچھلے 10 سال سے پشاور میں صحافت کر رہی ہیں اور آجکل ایک نجی ٹیلی ویژن سے بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔ کورونا وائرس اور ذہنی دباؤ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رفت انجم نے ٹی این این کو بتایا کہ میڈیکل شعبے سے افراد کے ساتھ ساتھ صحافی بھی فرنٹ لائن پرموجود ہے اور اس وائرس کے حوالے سے لوگوں کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان میں اس حوالے سے خوف بھی زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا ‘ ہم ان لوگوں سے بات کرتے ہیں جن کو اس وائرس نے بیمار کردیا ہے، ان لوگوں سے بھی بات کرتے ہیں جن کو اس حوالے سے کوئی آگاہی نہیں ہے تو اس خوف کے ماحول میں ہرکوئی پریشان ہے اور دباؤ کا شکار ہے۔ ایسے ہم صحافی بھی انسان ہے اور اس حوالے سے خوف میں مبتلا ہے کہ ہم جن لوگوں کا انٹرویو کررہے ہیں آیا ان کو کورونا وائرس تو نہیں ہوا اور انہوں نے اس حوالے احتیاطی تدابیر اپنائی ہے کہ نہیں، ان سے یہ وائرس تو ہمیں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔’
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے رفت انجم نے کہا کہ صحافیوں نے ہمیشہ فرنٹ لائن پررہ کرلوگوں تک خبریں پہنچائی ہے، چاہے بارش ہو، آندھی، کوئی وبا ہو یا دہشت گردی، اور اب بھی صحافی ہونے کے ناطے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحافی تو روزانہ توکل کی بنیاد پرگھر سے نکلتے ہیں کہ رات کو گھر صحیح سلامت واپس لوٹیں گے یا نہیں، تاہم کورونا وائرس بہت خطرناک ہے اس لیے صحافیوں کو چاہیئے کہ احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے ہسپتالوں کے اندر زیادہ جانا بند کردیں، زیادہ سیریس مریضوں سے نہ ملے، ماسک وغیرہ کا استعمال کریں اور جو لوگوں کو سمجھارہے ہیں کہ سماجی میل جول کم کریں اور ہاتھ اور گلا ملانے سے پرہیز کریں تو ان ہدایات پرخود بھی عمل کریں۔
رفت نے بتایا ‘ میں جب بھی رپورٹنگ سے واپس آتی ہوں تو اپنے مائیک کو سینیٹائزر سے صاف کرلیتی ہوں تاکہ میرے باقی ساتھیوں کو اس سے کوئی خطرہ نہ ہو۔کیونکہ یہ وائرس بہت خطرناک ہے اور کسی کو پتہ نہیں چلتا کہیں پہ بھی موجود ہوسکتا ہے۔’
رفعت کی طرح ذیشان کاکاخیل بھی پچھلے کئی سالوں سے ایک نجی ٹی وی کے لئے ہیلتھ رپورٹنگ کر رہا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران ذیشان کاکاخیل نے کہا کہ وہ وائرس کی نوعیت سے زیادہ باخبرہے اور باقی لوگوں کی نسبت صحافی اس حوالے سے کافی پریشان ہیں کیونکہ اس وائرس کا کوئی علاج نہیں ہے اور بہت خطرناک ہے اور ہروقت کورونا پر کام کرنے سے ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ دل میں خوف اور دباؤ ہونے کے باوجود صحافی اپنی ڈیوٹی بخوبی سرانجام دے رہے ہیں اور لوگوں کو آگاہی دے رہے ہیں۔
ذیشان کاکاخیل نے کہا’ اس وائرس نے مجھے بھی متاثر کیا ہے اور میں جہاں جاتا ہوں تو پریشانی میں ہوتا ہوں کہ خدانخواستہ کہیں مجھے بھی یہ وائرس نہ ہوجائے کیونکہ عام لوگوں کی نسبت مجھے اس سے خطرہ زیادہ ہے کہ میں سارا دن فیلڈ میں ہوتا ہوں اور بیٹ بھی میری صحت کی ہے۔’
‘میرے پاس جیب میں ہروقت سینیٹائزر موجود ہوتا ہے جبکہ ماسک دو تین ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کوشش کرتا ہوں کہ کچھ وقت کے بعد ہاتھوں کو بھی دھوتا رہوں کہ میں اس سے محفوظ رہ سکوں لیکن ہونا تو یہ چاہیئے کہ حکومت نے جس طرح میڈیکل سٹاف کو حفاظتی کٹس دیئے ہیں اسی طرح ہمارے لیے بھی ایک گائیڈ لائن واضح ہوکہ ہم بھی اپنی ڈیوٹیوں کے دوران اس سے محفوظ رہ سکیں’ رپورٹرذیشان کاکاخیل نے شکوہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح پہلے فیلڈ میں کام کرتے تھے اب اس طرح نہیں کرپاتے کیونکہ وائرس کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے اس کے ساتھ ساتھ اپنی سرگرمیوں کو بھی محدود کرلیا ہے۔
دوسری جانب سائیکالوجسٹ عرشی ارباب کا اس حوالے سے کہنا ہے پہلے کورونا وائرس کے کیسز جب پاکستان میں سامنے نہیں آئے تھے تو لوگوں میں اتنا خوف نہیں تھا لیکن اب یہاں بھی اس سے لوگ متاثر ہوئے ہیں اور اموات بھی ہوئی ہے تو لوگوں کی بے چینی بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویسے تو سب لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں لیکن جو فرنٹ لائن پرکام کررہے ہیں جن میں میڈیکل سٹاف اور صحافی شامل ہیں وہ زیادہ دباؤ میں اس لیے ہے کہ وہ ان مریضوں کو قریب سے دیکھتے ہیں اور اس کی تباہی سے زیادہ باخبربھی ہیں۔
صحافی متاثرہ افراد کی کوریج کے بعد جب وہاں سے نکلتے ہیں تو اس بات کا چانس بہت زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اس وائرس کو اپنے ساتھ لے آئیں، اس لیے بھی صحافی بہت دباؤ میں ہے اور ان کو ہونا بھی چاہیئے۔ اس کے ساتھ صحافی ان مریضوں سے بھی ملتے ہیں جن کی حالت بہت خراب ہوتی ہے جن کو دیکھ کروہ بھی سکتے میں آجاتے ہیں اور گھر آنے کے بعد وہ نہ تو صحیح سے کھا پی سکتے ہیں اور نہ سوسکتے ہیں اور اگر سوبھی جائے تو خواب میں وہی سب کچھ دیکھتے ہیں اور اسطرح انزائٹی کا شکار ہوجاتے ہیں’عرشی ارباب نے وضاحت کی۔
صحافیوں کو ان حالات میں کیا کرنا چاہیئے ؟
اس حوالے سے عرشی ارباب نے کہا کہ وہ جہاں بھی کوریج کے لیے جائے تو مریضوں اور باقی افراد سے فاصلہ رکھیں، ماسک پہنیں، دستانے پہنیں اور اس کے ساتھ ساتھ اگر ان کو حکومت یا متعلقہ اداروں کی جانب سے کٹس بھی ملیں تو زیادہ بہتر ہوگا اور اس طرح وہ مکمل کور ہونگے۔
‘کوریج کرنے کے بعد ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھوئیں، سینیٹائزر کا استعمال کریں، فورا کپڑے تبدیل کریں اور ان کو گرم پانی سے دھوئیں، نیم گرم پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں، جب کوریج سے آئے تو فورا کلیاں کرلے اور گرم پانی سے سٹریم لے، نیند کو پورا کرلے، ان کو جو بندہ عزیز ہو ان سے زیادہ سے زیادہ بات کرلے، ان کو اچھے کی امید رکھنی چاہیئے، غصہ کو کنٹرول کرنا چاہیئے اور اگر ان کی حالت پھر بھی ٹھیک نہ ہو تو ایک سائیکالوجسٹ سے رابطہ کریں تاکہ ان کی صحت مزید خراب نہ ہو’ عرشی ارباب نے تجاویز دیں۔
عرشی ارباب نے کہا کہ اگر ایک صحافی کی ذہنی حالت مسلسل دباؤ کا شکار ہورہا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ کام سے چند دن کی چھٹی لے اور جو اس کا پسندیدہ مشغلہ ہو اس میں اپنا زیادہ تروقت گزارے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وائرس قریبا 8 گھنٹوں تک کسی کے ساتھ بھی سفرکرتا ہے اور یہ کسی بھی چیز پربیٹھ کرسفرکرسکتا ہے اور ایک انسان سے دوسرے انسان تک آسانی سے منتقل ہوسکتا ہے تو سب سے اچھی بات تو یہی ہے کہ صحافی بھی دیگر لوگوں کی طرح کوشش کریں کہ گھروں میں رہیں اور کام گھر سے ہی کرلیں لیکن اگر ان کا باہر جانا ناگزیر ہے تو پھر چاہئے کہ وہ دیگر تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرلیں تا کہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے عزیزوں کو بھی اس وائرس سے محفوظ رکھ سکیں۔