قومی

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور کب ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے؟

 

ملک میں عالمی وبا کورونا کے باعث عوام میں خوف و ہراس چھا گیا ہے اورعوام عام نزلہ کھانسی میں بھی تذبذب کا شکار ہو رہے ہیں کہ کہیں وہ بھی اس وائرس میں مبتلا تو نہیں۔

کورونا وائرس کو پہچاننے کے لیے سب سے ضروری ہے کہ اس کی علامات گھر کے ہر فرد کو معلوم ہوں تاکہ بروقت اس کے علاج کے لیے ایکشن لیا جا سکے اور اسے دوسروں تک پھیلنے سے بچایا جا سکے۔

عالمی ادارہ صحت نے چین سے پھیلنے والے وائرس کو سب سے پہلے کورونا کا نام دیا جس کے بعد اس مرض کووڈ-19 کا نام دیا گیا اور اب سے عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے جس کی لپیٹ میں اب تک دنیا کے 192 ممالک آ چکے ہیں۔

اس وبا سے متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں اب تک 600 سے زائد کیسز سامنے آچکے ہیں جب کہ 6 ہلاکتیں بھی رپورٹ ہو چکی ہیں۔

تاہم ملک میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے سبب عوام میں خوف بھی پھیلتا جا رہا ہے جب کہ ضروری ہے کہ اس کی علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے اور اس کا مقابلہ کیا جائے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کی سب سے عام علامت بخار، تھکن اور خشک کھانسی ہے جب کہ کچھ مریضوں کو نزلہ، گلے میں درد، سانس لینے میں دشواری، جسم درد اور دست کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔

برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے مطابق کورونا وائرس کی نشاندہی تیز بخار کرتا ہے اس صورت میں چھاتی اور پیٹ شدید گرم محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک خطرناک قسم کی کھانسی کی شکایت ہوتی ہے یعنی اس میں مسلسل تکلیف دہ کھانسی جاری رہتی ہے۔

این ایچ ایس کی تجویز کے مطابق جب کسی فرد میں یہ علامات پائی جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کورونا وائرس میں مبتلا ہے۔ این ایچ ایس کے مطابق اس صورت میں ہسپتال جانے کے بجائے سب سے پہلے 7 دن تک خود گھر میں محدود رکھنا چاہیے اور اگر وہ شخص اہل خانہ کے ساتھ رہتا ہے تو اسے 14 دن تک قرنطینہ کرنا چاہیے تاکہ اگر وہ اس وائرس میں مبتلا ہو بھی تو وہ دوسروں میں نہ پھیلے۔

این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ چونکہ ہر نزلہ زکام کووڈ-19 نہیں اس لیے ضروری ہے کہ محدود دورانیے میں اپنی کیفیت کو پہچانیں اور طبیعت نہ سنبھلنے پر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

طبی ماہرین کے مطابق اس بات کا اندازہ اب تک نہیں لگایا جا سکا ہے کہ آگے کورونا وائرس کتنا سنگین ہو سکتا ہے اور یہ وبا کب تک جاری رہ سکتی ہے اور نہ ہی اس کے علاج کے لیے کوئی ویکسین ہے مگر اس سے بچنے کا سب سے بہترین طریقہ آئسولیشن یعنی سماجی فاصلہ اختیار کر کے خود کو محدود رکھنا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button